کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلے میں کہ بعض لوگ گورنمنٹ سے شادی گرانٹ حاصل کرنے کے لیے فرضی نکاح نامہ بنواتے ہیں، جس میں لڑکی، والد، گواہوں اور فرضی دلہا کے دستخط کروائے جاتے ہیں، نکاح حقیقت میں پڑھا نہیں جاتا اور سب کو معلوم ہوتا ہے کہ یہ صرف پیسے لینے کی غرض سے ہے۔
ایسا نکاح شرعاً درست ہے یا نہیں
شرعی نکاح کے لیے دو گواہوں کی موجودگی میں باقاعدہ ایجاب و قبول ضروری ہے، ایجاب و قبول کیے بغیر صرف کاغذی دستاویز پر دستخط کرنے سے نکاح منعقد نہیں ہوتا، البتہ شادی گرانٹ لینے کے لیے فرضی نکاح نامہ بنوانا سراسر دھوکہ اور ناجائز ہے۔
*مجمع الانهر:(317/1،ط:دار إحياء التراث العربي)*
قال صاحب الدرر وينعقد بإيجاب وقبول وضعا للماضي كزوجت وتزوجت وينعقد أيضا بما وضعا أي بلفظين وضع أحدهما للماضي والآخر للاستقبال يعني الأمر فإنه موضوع للاستقبال كزوجني وزوجت .
*بدائع الصنائع:(231/2،ط: دارالكتب العلمية)*
وأما بيان صيغة اللفظ الذي ينعقد به النكاح فنقول: لا خلاف في أن النكاح ينعقد بلفظين يعبر بهما عن الماضي كقوله: زوجت وتزوجت وما يجري مجراه.وأما بلفظين يعبر بأحدهما عن الماضي وبالآخر عن المستقبل كما إذا قال رجل لرجل: زوجني بنتك أو قال: جئتك خاطبا ابنتك أو قال جئتك لتزوجني بنتك فقال الأب: قد زوجتك.