ایک عورت دراصل دو حقیقی جُڑواں بہنیں ہیں جو قدرتی طور پر اس طرح جُڑی ہوئی ہیں کہ اُن کے دو الگ الگ سر، دل اور دماغ (یعنی شعور و شخصیت) ہیں، مگر اُن کا نچلا دھڑ مشترک ہے۔ ہر بہن کی اپنی عقل، ارادہ، پسند و ناپسند الگ ہے، اور وہ ایک دوسرے سے مختلف خیالات رکھتی ہیں۔
ایسی حالت میں ایک مرد اُن میں سے ایک بہن سے نکاح کرنا چاہتا ہے، جبکہ دوسری بہن کسی اور مرد سے نکاح کرنا چاہتی ہے۔
اس صورتحال میں درج ذیل سوالات پیدا ہوتے ہیں:
1. کیا دونوں بہنیں الگ الگ مردوں سے نکاح کر سکتی ہیں، جبکہ ان کا نچلا دھڑ ایک ہے؟
2. اگر ایک مرد دونوں بہنوں سے شادی کرے تو کیا یہ قرآنِ کریم کی اس ممانعت کے خلاف ہوگا جس میں بیک وقت دو بہنوں سے نکاح کو حرام قرار دیا گیا ہے؟
واضح رہے کہ شریعتِ مطہرہ میں دو حقیقی بہنوں کو بیک وقت نکاح میں جمع کرنا حرام ہے، جیسا کہ قرآنِ کریم میں صراحتاً ممانعت آئی ہے، لہٰذا پوچھی گئی صورت میں اگرچہ یہ دونوں جُڑواں بہنیں جسمانی طور پر جزوی ملی ہوئی ہیں، مگر چونکہ ان کا دماغ، دل، شعور اور شخصیت الگ ہے، اس لیے شرعاً یہ دو الگ افراد شمار ہوں گی، اس بنا پر ایک مرد کا دونوں سے نکاح کرنا ناجائز اور حرام ہوگا، اسی طرح دو شخصوں کا بھی ان دونوں سے نکاح صحیح نہیں ہے، کیونکہ اس میں ایسا جسم جو دونوں کا مشترک ہے، دو مختلف مردوں کے ازدواجی تعلق کا مرکز بن جائے گا جو حرام، ناجائز ہے۔
القران الكريم:( النساء 23:4)
حُرِّمَتْ عَلَيْكُمْ أُمَّهَاتُكُمْ وَبَنَاتُكُمْ وَأَخَوَاتُكُمْ وَعَمَّاتُكُمْ وَخَالَاتُكُمْ (الیٰ قوله تعالیٰ)وَأَنْ تَجْمَعُوا بَيْنَ الْأُخْتَيْنِ إِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ إِنَّ اللَّهَ كَانَ غَفُورًا رَحِيمًا (23)
الشامية:(38/3،ط: دار الفكر)
(و) حرم (الجمع) بين المحارم (نكاحا) أي عقدا صحيحا (وعدة ولو من طلاق بائن، و) حرم الجمع (وطء بملك يمين بين امرأتين أيتهما فرضت ذكرا لم تحل للأخرى).
فتح القدير:(212/3،ط: دار الفكر)
ولا يجمع بين أختين نكاحا ولا بملك يمين وطئا) لقوله تعالى ﴿وأن تجمعوا بين الأختين﴾ [النساء: ٢٣] ولقوله عليه الصلاة والسلام «من كان يؤمن بالله واليوم الآخر فلا يجمعن ماءه في رحم أختين» .