تحقیق و تخریج حدیث

کیارسول اللہﷺپرجادوہواتھا

فتوی نمبر :
780
| تاریخ :
0000-00-00
عقائد / ایمان و کفر / تحقیق و تخریج حدیث

کیارسول اللہﷺپرجادوہواتھا

السلام علیکم
کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر سحر ہوا ہے یا نہیں اور جو لوگ منکر ہے اس کا کیا حکم ہے ؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

جی ہاں! صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺپرجادوکیا گیا ہے۔جمہور مفسرین اور محدثین کرام کا اس پر اتفاق ہے اور اس کا انکار کرنے والا بدعتی اور فاسق ہے۔
صحیح بخاری میں ہے:
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہامروی ہے کہ کہ ایک بار رسول اللہ ﷺ پر جادو کردیا گیا تو آپ ﷺ کی یہ حالت ہوگئی کہ آپ کو کچھ نہ کرنے کے باوجود خیال ہوتا کہ میں کچھ کر رہا ہوں، ایک دن آپ میرے پاس تھے آپ دعا کرتے رہے، پھر آپ ﷺ نے فرمایا :اے عائشہ! کیا تمہیں معلوم ہے کہ میں جو کچھ معلوم کرنا چاہتا تھا، وہ اللہ تعالیٰ نے مجھے بتلادیا، میں نے عرض کیا: وہ کیا یا رسول اللہ! ، آپ ﷺ نے فرمایا: میرے پاس دو آدمی آئے ان میں سے ایک میرے سر کے پاس اور دوسرا میرے پاؤں کے پاس بیٹھ گیا، پھر ان میں سے ایک نے اپنے ساتھی سے پوچھا:اس آدمی کو کیا تکلیف ہے؟دوسرے نے کہا: اس پر جادو کیا گیا ہے۔ پوچھا کس نے کیا؟ جواب دیا :لبید بن اعصم یہودی نے جو بنی زریق کا ایک آدمی ہے۔ پوچھا: کس چیز سے؟ کہا :کنگھی اور کنگھی سے نکلنے والے بالوں کو نر کھجور کی جھلی میں رکھ کر۔ پوچھا: وہ کہاں ہے؟ جواب دیا :ذی اروان کے کنویں میں۔ راوی کا بیان ہے کہ نبیﷺ (اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کے ساتھ) اس کنویں پر تشریف لے گئے، اسے دیکھا، اس کے پاس کھجور کا ایک درخت تھا (اور اس جادو کی چیز کو نکلوا کر) آپ ﷺ حضرت عائشہ کے پاس تشریف لائے، تو فرمایا :و اللہ اس کنویں کا پانی بالکل سرخ تھا اور اس کے پاس کے درخت شیطان کے سروں کی مانند تھے۔ حضرت عائشہ کا بیان ہے، میں نے عرض کیا :آپ نے اس کو ظاہر نہیں کرایا ۔فرمایا :نہیں !اللہ نے مجھے عافیت دی اور شفاء بخشی اور میں اس آدمی کی برائی کو مشہور کرنے سے ڈرا، پھر آپ ﷺ نے اس جادو کی چیز کو دفن کرنے کا حکم دیا۔(حدیث نمبر:5766)
قاضی عیاض (م۵۴۴ھ)فرماتے ہیں:
’’اس حدیث کی متعدد روایات سے واضح ہوتا ہے کہ جادو کا اثر نبی اکرم ﷺ کے صرف جسم اور ظاہری اعضا پر ہوا تھا، نہ کہ عقل، دل یا عقیدے پر۔۔۔روایات میں جو کچھ بھی اس قسم کے الفاظ آئے ہیں ، مثلاً یہ کہ ’’آپ کو ایسا لگتا کہ آپ نے کوئی کام کیا ہے، حالانکہ حقیقت میں نہیں کیا ‘‘ تو اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ آنکھوں کے سامنے ایک تخیل یا ظاہری گمان پیدا ہو جاتا، نہ کہ یہ کہ عقل میں کوئی خلل یا خرابی پیدا ہو گئی ہو،لہٰذا اس میں نہ تو رسالت پر کوئی اشکال وارد ہوتا ہے اور نہ ہی گمراہ لوگ اس سے کسی قسم کی دلیل اپنے باطل کے لیے اخذ کر سکتے ہیں۔‘‘(نيل الأوطار:7/ 211)
علامہ ابن قیم الجوزیہ (م۷۵۱ھ) فرماتے ہیں:’’امام بخاری و مسلم نے اس حدیث کی صحت پر اتفاق کیا ہے اور محدثین میں سے کسی نے اس حدیث پر ضعف کا کلمہ نہیں کہا۔ یہ واقعہ مفسرین، محدثین، مؤرخین، اور فقہاء کے ہاں مشہور ہے اور یہ لوگ متکلمین کی نسبت رسول اللہ ﷺکے حالات و واقعات سے زیادہ واقف ہیں۔۔۔ آپ ﷺ پر جو جادو کیا گیا، وہ ایک عارضی بیماری کی مانند تھا جس سے اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو شفا عطا فرمائی اور اس میں نہ تو کوئی عیب ہے اور نہ ہی کوئی کمی، کیونکہ انبیاء علیہم السلام کو بیماری لاحق ہونا ممکن ہے۔ اسی طرح مرض کی شدت کے باعث آپ ﷺ بعض اوقات بے ہوش بھی ہو جاتے تھے، اور ایک موقع پر جب آپ ﷺ کا پاؤں پھسلا تو آپ گر پڑے اور آپ کا شانہ زخمی ہوا (بخاری و مسلم)۔ یہ سب اللہ تعالیٰ کی طرف سے آزمائشیں تھیں جن سے آپ ﷺ کے درجات کی بلندی اور کرامت میں اضافہ ہوا، کیونکہ سب سے زیادہ سخت آزمائشیں انبیاء پر ہی آتی ہیں۔ انبیاء کو ان کی قوموں کی طرف سے قتل، مار، گالی، قید جیسی اذیتیں دی گئیں۔ پس یہ کوئی تعجب کی بات نہیں کہ آپ ﷺ پر بھی بعض دشمنوں نے جادو کے ذریعے اذیت پہنچانے کی کوشش کی، جیسے کہ وہ شخص جس نے آپ کے سجدے کی حالت میں پشت پر اونٹ کی اوجھ ڈال دی۔ ان تمام واقعات میں انبیائےکرام علیہم السلام کے لیے کوئی عیب یا نقص نہیں، بلکہ یہ ان کی شانِ کمال اور اللہ تعالیٰ کے ہاں بلند مقام کی دلیل ہے۔‘‘ (بدائع الفوائد :223-224/2)
حافظ ابن حجر عسقلانی (م۸۵۲ھ)اس حدیث کی تشریح میں علامہ مازری کاقول نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا:’’ بعض بدعتی گروہوں نے اس حدیث کا انکار کیا اور یہ دعویٰ کیا کہ یہ حدیث مقامِ نبوت کو گھٹاتی ہےاور نبوت کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کرتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جو چیز مقامِ نبوت میں کمی یا شک پیدا کرے، وہ قطعاً باطل ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر نبی پر جادو کے وقوع کو تسلیم کر لیا جائے تو اس سے انبیاء کی لائی ہوئی شریعت پر اعتماد باقی نہیں رہتا، کیونکہ پھر یہ بھی احتمال ہو سکتا ہے کہ نبی کو یہ گمان ہو کہ وہ جبریل کو دیکھ رہے ہیں، حالانکہ وہ موجود نہ ہوں، یا یہ کہ نبی کو وحی ہو ہی نہ، لیکن وہ سمجھیں کہ وحی نازل ہوئی ہے۔
امام مازریؒ فرماتے ہیں کہ یہ تمام شبہات اور اعتراضات ناقابلِ قبول ہیں، کیونکہ نبی اکرم ﷺ کی صداقت اور تبلیغ میں عصمت پر دلیل قائم ہے اور معجزات آپ ﷺ کی سچائی کی گواہی دیتے ہیں۔ اس لیے جس بات پر دلیل قائم ہو چکی ہو، اس کے برخلاف احتمالات پیش کرنا باطل اور غیر معتبر ہے۔
جہاں تک دنیاوی امور کا تعلق ہے تو نہ نبی ﷺ ان کے لیے مبعوث کیے گئے اور نہ ہی رسالت ان کی بنیاد پر ہے، لہٰذا دنیاوی امور میں نبی ﷺ بھی عام انسانوں کی طرح ان چیزوں کا سامنا کر سکتے ہیں جن کا سامنا دیگر انسانوں کو ہوتا ہے، جیسے کہ بیماری یا عارضی وہم، چنانچہ دنیاوی معاملے میں کسی غلط فہمی یا عارضی اثر کا پیش آ جانا کوئی قابلِ اعتراض بات نہیں، جب کہ دینی امور میں نبی ﷺ مکمل طور پر محفوظ و معصوم ہیں۔(فتح الباری لابن حجر: 10/226-227)
علامہ عینی (م۸۵۵ھ)اس حدیث کی تشریح میں لکھتے ہیں:
’’بلاشبہ یہ جادو نبی کریم ﷺ کے لیے مضر ثابت نہ ہوا، کیونکہ اس کے نتیجے میں نہ تو وحی میں کوئی تبدیلی آئی اور نہ ہی شریعت میں کسی قسم کی خرابی یا مداخلت واقع ہوئی۔ نبی کریم ﷺ کو صرف کچھ ظاہری تخیل یا گمان لاحق ہوا، لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس حال پر نہیں چھوڑا، بلکہ اپنی خاص حفاظت کے ذریعے آپ ﷺ کو جادو کے مقام کی اطلاع دی، اس کے نکالنے اور اثر ختم کرنے کا طریقہ سکھایا اور اس سے آپ ﷺ کو مکمل طور پر نجات عطا فرمائی، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے بکری کے گوشت کے زہریلے اثر آپ ﷺ کو بچایا، اسی طرح یہاں بھی آپ کی حفاظت فرمائی۔تیسری بات یہ ہے کہ یہ جادو صرف آپ ﷺ کے ظاہر پر اثر انداز ہوا، آپ کے قلب، عقل اور عقیدے پر ہرگز نہیں۔ جادو بھی دیگر بیماریوں کی طرح ایک بیماری ہے، اور یہ نبی ﷺ پر بھی طاری ہو سکتی ہے جیسے کہ عام جسمانی امراض لاحق ہو سکتے ہیں، لہٰذا دنیاوی امور میں ایسا کوئی عارضی اثر آجانا آپ ﷺ کی نبوت اور مقامِ عصمت میں کوئی کمی یا نقص پیدا نہیں کرتا، کیونکہ دنیاوی معاملات میں انبیاء علیہم السلام کو بھی، دیگر انسانوں کی طرح، ظاہری آفات کا سامنا ہو سکتا ہے۔‘‘( عمدۃ القاری:98/15)

مفتی شفیع عثمانی(م۱۳۹۶ھ) لکھتے ہیں:
’’کسی نبی یا پیغمبر پر جادو کا اثر ہوجانا ایسا ہی ممکن ہے جیسے بیماری کا اثر ہوجانا، کیونکہ انبیا بشری خصوصیات سے علیحدہ نہیں ہوتے۔ جیسے انہیں زخم لگ سکتا ہے، بخار اور درد ہو سکتا ہے، اسی طرح جادو کا اثر بھی ہو سکتا ہے، کیونکہ جادو بھی جنات وغیرہ کے اثر سے ہوتا ہے۔ حدیث سے ثابت بھی ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺپر جادو کا اثر ہوگیا تھا۔ آخری آیت میں جہاں کفار نے آپ کو ”مسحور“کہا اور قرآن نے اس کی تردید کی، اس کا مطلب دراصل یہ ہے کہ ان کی مراد ”مسحور“ کہنے سے مجنون کہنا تھا، جس کی قرآن نے تردید کی۔ اس لیے حدیث سحر اس کے خلاف اور متعارض نہیں ہے۔‘‘(معارف القرآن: 5/490-491)
خلاصہ کلام:
اس تفصیل سے ثابت ہوا کہ رسول اللہ ﷺ پر جادو ہوا تھا اور اس کے توڑ کے لیے اللہ تعالٰی نے معوذتین نازل فرمائی، لہذا اس کا انکار کرنے والا بدعتی اور فاسق ہے۔

حوالہ جات

صحيح البخاري: (7/ 137،رقم الحديث:5766،ط:دارطوق النجاة)
عن عائشة قالت: «سحر رسول الله صلى الله عليه وسلم، حتى إنه ليخيل إليه أنه يفعل الشيء وما فعله، حتى إذا كان ذات يوم وهو عندي دعا الله ودعاه، ثم قال: أشعرت يا عائشة أن الله قد أفتاني فيمااستفتيته فيه. قلت: وما ذاك يا رسول الله؟ قال: جاءني رجلان، فجلس أحدهما عند رأسي والآخر عند رجلي، ثم قال أحدهما لصاحبه: ما وجع الرجل؟ قال: مطبوب، قال: ومن طبه؟ قال: لبيد بن الأعصم اليهودي من بني زريق، قال: فيماذا؟ قال: في مشط ومشاطة وجف طلعة ذكر، قال: فأين هو؟ قال: في بئر ذي أروان قال: فذهب النبي صلى الله عليه وسلم في أناس من أصحابه إلى البئر، فنظر إليها وعليها نخل، ثم رجع إلى عائشة فقال: والله لكأن ماءها نقاعة الحناء، ولكأن نخلها رؤوس الشياطين، قلت: يا رسول الله، أفأخرجته؟ قال: لا، أما أنا فقد عافاني الله وشفاني، وخشيت أن أثور على الناس منه شرا. وأمر بها فدفنت.

بدائع الفوائد لابن قيم الجوزية:(2/ 223-224،ط:دار الكتاب العربي)
وقد اتفق أصحاب الصحيحين على تصحيح هذا الحديث ولم يتكلم فيه أحد من أهل الحديث بكلمة واحدة والقصة مشهورة عند أهل التفسير والسنن والحديث والتاريخ والفقهاء وهؤلاء أعلم بأحوال رسول الله وأيامه من المتكلمين ... والسحر الذي أصابه كان مرضا من الأمراض عارضا شفاه الله منه ولا نقص في ذلك ولا عيب بوجه ما فإن المرض يجوز على الأنبياء وكذلك الإغماء فقد أغمي عليه في مرضه ووقع حين انفكت قدمه وجحش شقه" رواه البخاري ومسلم وهذا من البلاء الذي يزيده الله به رفعة في درجاته ونيل كرامته وأشد الناس بلاء الأنبياء فابتلوا من أممهم بما ابتلوا به من القتل والضرب والشتم والحبس فليس ببدع أن يبتلى النبي ﷺمن بعض أعدائه بنوع من السحر كما ابتلى بالذي رماه فشجه وابتلى بالذي ألقى على ظهره السلا وهو ساجد وغير ذلك فلا نقص عليهم ولا عار في ذلك بل هذا من كمالهم وعلو درجاتهم عند الله.

فتح الباري لابن حجر (10/ 226 ،ط المكتبة السلفية)
قال المازري: أنكر المبتدعة هذا الحديث، وزعموا أنه يحط منصب النبوة ويشكك فيها، قالوا: وكل ما أدى إلى ذلك فهو باطل، وزعموا أن تجويز هذا يعدم الثقة بما شرعوه من الشرائع إذ يحتمل على هذا أن يخيل إليه أنه يرى جبريل وليس هو ثم، وأنه يوحي إليه بشيء ولم يوح إليه بشيء، قال المازري: وهذا كله مردود، لأن الدليل قد قام على صدق النبي صلى الله عليه وسلم فيما يبلغهعن الله تعالى وعلى عصمته في التبليغ، والمعجزات شاهدات بتصديقه، فتجويز ما قام الدليل على خلافه باطل. وأما ما يتعلق ببعض أمور الدنيا التي لم يبعث لأجلها، ولا كانت الرسالة من أجلها فهو في ذلك عرضة لما يعترض البشر كالأمراض، فغير بعيد أن يخيل إليه في أمر من أمور الدنيا ما لا حقيقة له مع عصمته عن مثل ذلك في أمور الدين.

عمدة القاري شرح صحيح البخاري: (15/ 98،ط: دار إحياء التراث العربي)
أن ذلك السحر لم يضره لأنه لم يتغير عليه شيء من الوحي ولا دخلت عليه داخلة في الشريعة، وإنما اعتراه شيء من التخيل والوهم، ثم لم يتركه الله على ذلك، بل تداركه بعصمته وأعلمه موضع السحر وأعلمه استخراجه وحله عنه، كما دفع الله عنه السم بكلام الذراع. الثالث: أن هذا السحر إنما تسلط على ظاهره لا على قلبه وعقله واعتقاده، والسحر مرض من الأمراض وعارض من العلل يجوز عليه كأنواع الأمراض، فلا يقدح في نبوته ويجوز طروه عليه في أمر دنياه، وهو فيها عرضة للآفات كسائر البشر.

نيل الأوطارللشوكاني: (7/ 211،ط: دار الحديث)
وقد جاءت روايات هذا الحديث مبينة ‌أن ‌السحر ‌إنما ‌تسلط ‌على ‌جسده وظواهر جوارحه لا على عقله وقلبه واعتقاده، ويكون معنى قوله: " حتى يظن أنه يأتي أهله ولا يأتيهم " ويروى " أنه يخيل إليه ": أي يظهر له من نشاطه ومتقدم عادته القدرة عليهن، فإذا دنا منهن أخذه السحر فلم يأتهن ولم يتمكن من ذلك، وكل ما جاء في الروايات من أنه يخيل إليه أنه فعل شيئا ولم يفعله ونحوه فمحمول على التخيل بالبصر لا بخلل تطرق إلى العقل، وليس في ذلك ما يدخل لبسا على الرسالة ولا طعنا لأهل الضلالة انتهى.

معارف القرآن:( 5/490-491،ط:ادارۂ معارف القرآن)

واللہ تعالی اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ دارالعلوم حنفیہ (نعمان بن ثابت)

فتوی نمبر 780کی تصدیق کریں
9
Related Fatawa متعلقه فتاوی
  • کیارسول اللہﷺپرجادوہواتھا

    یونیکوڈ   تحقیق و تخریج حدیث 0
  • عورت جنت میں کس شوہر کے ساتھ ہوگی؟

    یونیکوڈ   تحقیق و تخریج حدیث 0
  • قیامت کے دن سورج سوا نیزے کے فاصلے پر ہونے کی تحقیق

    یونیکوڈ   تحقیق و تخریج حدیث 0
  • دریائے نیل کے نام عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے خط کی حقیقت

    یونیکوڈ   تحقیق و تخریج حدیث 0
  • پانچ نمازوں کی فضیلت سے متعلق روایت کی تحقیق

    یونیکوڈ   تحقیق و تخریج حدیث 0
  • بڑھیا کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کچرا پھینکنے کے واقعے کی تحقیق

    یونیکوڈ   تحقیق و تخریج حدیث 0
  • دنیا میں کسی انسان کے لیے وقت کے رک جانے سے متعلق روایات کی تحقیق

    یونیکوڈ   تحقیق و تخریج حدیث 0
  • ’’خیبر کی فتح حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اور یہ کام انبیائے علیہم السلام میں سے کسی ایک سے بھی نہیں لیا گیا۔‘‘ کہنے والے کا حکم

    یونیکوڈ   تحقیق و تخریج حدیث 0
  • دعائے ابو درداء رضی اللہ عنہ کی تحقیق

    یونیکوڈ   تحقیق و تخریج حدیث 0
...
Related Topics متعلقه موضوعات