ماه محرم ميں لوگ شادی کرنے کو منحوس سمجھتے ہیں میرا سوال یہ ہے کہ یہ محرم میں شادی کرنا شرعا کیسا ہے ؟
محرم کے مہینے میں حضرت حسین کی شہادت کے سانحے کی وجہ سے بعض لوگوں کے ذہنوں میں یہ بات بیٹھ گئی ہے کہ یہ غم اور سوگ کا مہینہ ہے، لہٰذا اس میں شادی بیاہ اور خوشی کی تقریبات کرنا جائز نہیں اور یہ سمجھا جاتا ہے کہ اگر اس مہینے میں خوشی کی کوئی تقریب کی جائے تو وہ منحوس ہو جاتی ہے، اس میں خیر و برکت نہیں رہتی اور شادی کامیاب نہیں ہوتی،حالانکہ یہ سوچ بالکل غلط اور بے بنیاد ہے۔ محرم کا مہینہ نہ صرف حرمت والا مہینہ ہے بلکہ بابرکت بھی ہے، بلکہ عجیب بات تو یہ ہے کہ ایک معتبر قول کے مطابق امیر المؤمنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا نکاح حضرت فاطمہ الزہراء سے سن ۲ ہجری میں ہوا؛ البتہ اس میں مہینے کے تعین میں اختلاف ہے: بعض کے نزدیک یہ نکاح محرم الحرام میں ہوا، بعض نے صفر المظفر ذکر کیا اور بعض کے نزدیک ذوالحجہ کا مہینہ تھا،مگر حافظ ابن حجرعسقلانی (م۸۵۲ھ)نے محرم الحرام میں نکاح ہونے والی روایت کو ترجیح دی ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ محرم کے مہینے کو منحوس سمجھنا سراسر باطل ہے اور اس میں شادی یا خوشی کی تقریبات منعقد کرنے میں شرعاً کوئی ممانعت نہیں، بلکہ بعض اوقات یہ برکت کا سبب بن سکتا ہے۔
فتاوی رحیمیہ میں ہے کہ
ماہ مبارک محرم میں شادی وغیرہ کرنا نامبارک اور ناجائز سمجھنا سخت گناہ اور اہل سنت کے عقیدے کے خلاف ہے۔ اسلام نے جن چیزوں کو حلال اور جائز قرار دیا ہو، اعتقاداً یا عملاً ان کو ناجائز اور حرام سمجھنے میں ایمان کا خطرہ ہے۔
فتاوی حقانیہ میں لکھا ہے کہ
محرم الحرام بھی سال کے دوسرے مہینوں کی طرح ایک مہینہ ہے، جس طرح سال کے دوسرے مہینوں میں شادی بیاہ کرنا جائز ہے، اسی طرح محرم میں بھی جائز ہے، کسی بھی دلیلِ شرعی سے حرمت و ممانعت ثابت نہیں۔ روافض اور شیعوں نے اس قبیح اور بے بنیاد مسئلہ کو لوگوں میں رائج کر رکھا ہے، مسلمانوں کے لئے لازم ہے کہ وہ اس بدعت کو ترک کردیں۔
حضرت مولانا یوسف لدھیانوی رحمہ اللہ ایک سوال کے جواب میں لکھتے ہیں:شریعت میں کوئی مہینہ ایسا نہیں جس میں شادی سے منع کیا گیا ہو۔
مولانا سیف اللہ خالد رحمانی صاحب لکھتے ہیں:’’اسلام میں کوئی مہینہ، کوئی دن یا کوئی وقت منحوس اور نامبارک نہیں اور محرم کا مہینہ تو بہت سی فضیلتوں کاحامل ہے، خود یوم عاشوراء کے بھی بڑے فضائل ہیں، سوء اتفاق ہے کہ اسی دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے اور محبوب حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی مظلومانہ شہادت کا دل دوز واقعہ پیش آیا، لیکن اس واقعہ کی وجہ سے یہ سمجھ لینا کہ اس دن یا اس مہینہ میں شادی نہ کی جائے، نہایت ہی غلط ہے، کیونکہ اسلام تو دلیروں اور جانثاروں کا دین ہے، کوئی مہینہ اور کوئی تاریخ نہیں، جس میں کسی صحابی، یا اسلام کے کسی بڑ ے مجاہد اور سپوت کی شہادت کا واقعہ پیش نہ آیا ہو تو کیا پھر اس کی وجہ سے ان تمام مہینوں اور دنوں میں نکاح سے پرہیز کیا جائے گا ؟ اسلام سے پہلے شوال کے مہینہ میں عرب شادی بیاہ نہیں کرتے تھے، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے شوال ہی میں حضرت عائشہ سے نکاح فرمایا اور شوال ہی میں آپ کی رخصتی ہوئی، اس لیےحضرت عائشہ اس بات کو پسند کرتی تھیں کہ ان کے خاندان کی عورتوں کا نکاح شوال میں ہوا کرے، اس عمل سے یقینا آپ کا مقصود یہ بھی رہا ہوگا کہ یہ بات کہ فلاں خاص مہینہ میں نکاح نہ کیا جائے، لوگوں کے ذہن سے نکل جائے، پس محرم کے مہینہ میں نکاح کرنے میں کوئی قباحت نہیں۔
تاريخ دمشق لابن عساكر» (3/ 128،ط: دار الفكر)*
وتزوج علي بن أبي طالب فاطمة بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم لثلاث بقين من شهر صفر في السنة الثانية من الهجرة.
*جامع الأصول» (12/ 107،ط: مكتبة الحلواني)*
’’تزوجها علي بن أبي طالب في السنة الثانية من الهجرة في شهر رمضان، وبنى عليها في ذي الحجة، وقيل: تزوجها في رجب، وقيل: في صفر، وقيل: تزوجها بعد غزوة أحد.‘‘
* الإصابة في تمييز الصحابة» (8/ 263،ط: دار الكتب العلمية)*
وتزوّجها عليّ أوائل المحرم سنة اثنتين بعد عائشة بأربعة أشهر، وقيل غير ذلك.
*کذا فی فتاویٰ رحیمیہ:(115/2، ط: دارالاشاعت)*
*کذا فی فتاویٰ حقانیہ:(100/2،ط:دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک)*
*کذا فی آپ کے مسائل اور ان کا حل:(529/2،ط:لدھیانوی)*
*کذا فی کتاب الفتاوی:(326/4،ط: زمزم پبلیشرز)*