السلام علیکم
مہمان نوازی کے بارے میں کوئی قران کی روشنی میں اور احادیث کی روشنی میں کچھ ذرا بتائیے گا جزاک اللہ ۔
مہمان نوازی انبیائے کرام علیہم السلام کی سنت ہے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام وہ پہلے انسان ہیں،جنہوں نے دنیا میں مہان نوازی کی رسم جاری فرمائی ، ان کا معمول یہ تھا کہ کبھی تنہا کھانا نہ کھاتے، بلکہ ہر کھانے کے وقت تلاش کرتے کہ کوئی مہمان آجائے تو اس کے ساتھ کھائیں ۔
حدیث شریف میں مہمانوں کی عزت و خدمت کرنا ایمان کامل کا ایک جزو بتلایا گیاہے:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:’’ جو شخص اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اس کو چاہیے کہ اپنے مہمان کی خاطر کرے۔‘‘(صحیح بخاری،حدیث نمبر:6136)
نبی کریمﷺنے مہمان کی آمد کو خیروبرکت کا باعث قراردیا:
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:’’جس طرح چھری اونٹ کے کوہان کی طرف تیزی سے جاتی ہے، اس سے کہیں زیادہ تیزی سے بھلائی اس گھر میں آتی ہے، جس میں مہمان کثرت سے آتے ہیں۔‘‘(سنن ابن ماجہ،حدیث نمبر: 3356)
ایک حدیث میں ہےکہ اس شخص میں کوئی بھلائی نہیں ہے جو میزبانی نہ کرے۔(مسنداحمد،حدیث نمبر: 17419)
اسی وجہ سےصحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم مہمانوں کی بڑی خدمت کرتے تھے، بعض دفعہ خود نہیں کھاتے تھے، مگر اپنے مہمانوں کو ضرور کھلاتے تھے۔
بخاری شریف میں حضرت ابو طلحہ رضی اللہ تعالی عنہ کا واقعہ ذکر کیا گیا ہے کہ رسول اللہ ﷺکی خدمت میں ایک صاحب حاضر ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! میں فاقہ سے ہوں۔ نبی کریم ﷺنے انہیں ازواج مطہرات کے پاس بھیجا (کہ وہ آپ کی دعوت کریں) لیکن ان کے پاس کوئی چیز کھانے کی نہیں تھی۔ آپﷺنے فرمایا کہ کیا کوئی شخص ایسا نہیں جو آج رات اس مہمان کی میزبانی کرے؟ اللہ اس پر رحم کرے گا۔ اس پر ایک انصاری صحابی(ابوطلحہ) کھڑے ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ آج میرے مہمان ہیں، پھر وہ انہیں اپنے ساتھ گھر لے گئے اور اپنی بیوی سے کہا کہ یہ رسول اللہ ﷺ کے مہمان ہیں، کوئی چیز ان سے بچا کے نہ رکھنا، بیوی نے کہا اللہ کی قسم! میرے پاس اس وقت بچوں کے کھانے کے سوا اور کوئی چیز نہیں ہے۔ انصاری صحابی نے کہا اگر بچے کھانا مانگیں تو انہیں سلا دو اور آؤ یہ چراغ بھی بجھا دو، آج رات ہم بھوکے ہی رہ لیں گے، بیوی نے ایسا ہی کیا، پھر وہ انصاری صحابی صبح کے وقت رسول اللہ ﷺکی خدمت میں حاضر ہوئے تو نبی کریم ﷺنے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے فلاں (انصاری صحابی) اور ان کی بیوی (کے عمل) کو پسند فرمایا۔ یا (آپ ﷺنے یہ فرمایا کہ) اللہ تعالیٰ مسکرایا، پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی’’ويؤثرون على أنفسهم ولو كان بهم خصاصة‘‘ یعنی اور اپنے سے مقدم رکھتے ہیں، اگرچہ خود فاقہ میں ہی ہوں۔(صحیح بخاری،حدیث نمبر:4889)
صحيح البخاري: (8/ 32،ط6136 ،ط:دارطوق النجاة)
حدثنا عبد الله بن محمد: حدثنا ابن مهدي: حدثنا سفيان، عن أبي حصين، عن أبي صالح، عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: من كان يؤمن بالله واليوم الآخر فلا يؤذ جاره، ومن كان يؤمن بالله واليوم الآخر فليكرم ضيفه، ومن كان يؤمن بالله واليوم الآخر فليقل خيرا أو ليصمت.
أيضاً:(6/ 148، رقم الحديث: 4889 )
حدثني يعقوب بن إبراهيم بن كثير، حدثنا أبو أسامة ، حدثنا فضيل بن غزوان ، حدثنا أبو حازم الأشجعي، عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: أتى رجل رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: يا رسول الله، أصابني الجهد، فأرسل إلى نسائه فلم يجد عندهن شيئا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ألا رجل يضيف هذه الليلة، يرحمه الله، فقام رجل من الأنصار فقال: أنا يا رسول الله، فذهب إلى أهله فقال لامرأته: ضيف رسول الله صلى الله عليه وسلم، لا تدخريه شيئا، قالت: والله ما عندي إلا قوت الصبية، قال: فإذا أراد الصبية العشاء فنوميهم وتعالي، فأطفئي السراج، ونطوي بطوننا الليلة، ففعلت، ثم غدا الرجل على رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: لقد عجب الله عز وجل، أو: ضحك من فلان وفلانة، فأنزل الله عز وجل: {ويؤثرون على أنفسهم ولو كان بهم خصاصة}.
مسند أحمد: (28/ 635 ،رقم الحديث: 17419،ط: مؤسسة الرسالة)
عن عقبة بن عامر، عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: " لا خير فيمن لا يضيف.
سنن ابن ماجه: (4/ 452 ، رقم الحديث: 3356،ط: دار الرسالة العالمية)
عن أنس بن مالك، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: الخير أسرع إلى البيت الذي يغشى من الشفرة إلى سنام البعير.
الطبقات الكبرى: (1/ 30 ،ط: مكتبة الخانجي)
إبراهيم خليل الرحمن، صلى الله عليه وسلم-... وهو أول من أضاف الضيف.
معارف القرآن از مفتی شفیع عثمانیؒ:(647-648/4،ط:مکتبۂ معارف القرآن)
عاشورہ کے دن غسل کرنے اورآبِ زم زم کے پانی کا دنیا کے پانیوں میں شامل ہونے سے متعلق روایت کی تحقیق
یونیکوڈ سنت رسول ﷺ 0