کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ محمد ارشد نےاپنی چھوٹی بہن سلمہ مائی کا نکاح بلوغت سے قبل محمد جمشید ولد خدا بخش سے ۲۸ جون ۲۰۱۳ کو کردیا تھا بلوغت کے بعد میری ہمشیرہ نے اپنا اختیار استعمال کرکے اس کو فسخ نہیں کیا بلکہ محمد جمشید ولد خدا بخش کی منکوحہ رہنے پر رضامند رہی،مگر اب ان کی رضامندی کے بغیر اکرام ولد مہربان میری بہن کو ورغلا کر لے گیا ہے اور نکاح پر نکاح کرکے کہیں چھپا کر رکھا ہے اور واپس کرنے پر تیار بھی نہیں ہے کیا شریعت کی رو سے اکرام کا کسی کی منکوحہ کو اپنے پاس رکھنا جائز ہے ؟اور اہل اسلام کواس صورت میں اکرام کے ساتھ اور اس کے گھر والوں کے ساتھ کیسا برتاؤ کرنا چاہیے؟
نوٹ: اس معاملے میں اکرام کا سگا بھائی اور اس کے والد ان کو سپورٹ کر رہے ہیں خرچہ وغیرہ بھی وہ دے رہے ہیں ۔
واضح رہے کہ پوچھی گئی صورت میں سلمیٰ اب بھی جمشید کے نکاح میں ہے اور اکرام کا اس کو ورغلاکر لے جانا اور سلمیٰ سے نکاح پر نکاح کرنا (جوکہ ناجائز ہے) حرام ہے اور ان کے ساتھ تعاون کرنے والے (اکرام کے بھائی اور والد ) اس عمل کی وجہ سے گناہ گار ہیں اوران کی اصلاح کے لیے ان سے قطع تعلق کرنا چاہیے، جب تک وہ سلمیٰ کو واپس نہیں کرتے اور اپنے اس گناہ سے توبہ نہیں کرتے ۔
القرأن الكريم :(هود6: 113)
وَلَا تَرۡكَنُوٓاْ إِلَى ٱلَّذِينَ ظَلَمُواْ فَتَمَسَّكُمُ ٱلنَّارُ وَمَا لَكُم مِّن دُونِ ٱللَّهِ مِنۡ أَوۡلِيَآءَ ثُمَّ لَا تُنصَرُونَ
الشامية : (3/ 516، ط : دارالفكر)
أما نكاح منكوحة الغير ومعتدته فالدخول فيه لا يوجب العدة إن علم أنها للغير لأنه لم يقل أحد بجوازه فلم ينعقد أصلا، فعلى هذا يفرق بين فاسده وباطله في العدة، ولهذا يجب الحد مع العلم بالحرمة لكونها زنا كما في القنية وغيرها.
الهندية:(1/ 280، ط :دارالفكر)
لا يجوز للرجل أن يتزوج زوجة غيره وكذلك المعتدة .