السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
مسئلہ یہ عرض کرنا ہے کہ حضرت عمر فاروق رض اللّٰہ عنہ کی طرف ایک واقعہ منسوب کیا جاتا ہے کہ دریا دجلہ یا فرات کا پانی رک گیا تھا تو حضرت عمر فاروق رض اللّٰہ عنہ نے اس دریا میں ایک پرچی ڈالدی جس اس کا پانی جاری ہوگیا پھر کبھی بھی نہیں رکا
یہ پورا واقعہ کیا ہے؟ اور اس کی اسنادی حیثیت کس درجے کی ہے ؟آیا کہ اس کو بیان کرنا درست ہے؟
رہنمائی فرمائیں جزاک اللّٰہ خیر
جی ہاں! سوال میں ذکرکردہ واقعہ تاریخ کی معتبر کتب میں ذکر کیا گیا ہے،جس کی تفصیل یہ ہے کہ جب حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ مصر میں داخل ہوئے اور ’’بُؤونة‘‘ (عجمی مہینوں میں سے ایک مہینہ) آیا تو اہلِ مصر ان کے پاس آئے اور کہنے لگے:’’اے امیر! ہمارے اس نیل دریا کا ایک دستور ہے، یہ اس کے بغیر نہیں بہتا۔‘‘عمروؓ نے پوچھا: وہ کیا ہے؟انہوں نے کہا: جب اس مہینے میں بارہ راتیں گزر جاتی ہیں تو ہم ایک کنواری لڑکی (جو اپنے والدین کے پاس ہو) کو لیتے ہیں اور والدین کو راضی کرتے ہیں، پھر ہم اسے بہترین زیورات اور عمدہ کپڑے پہنا کر نیل میں ڈال دیتے ہیں۔
حضرت عمروؓ نے فرمایا: یہ کام اسلام میں نہیں ہوسکتا، اسلام تو پچھلی سب رسومات کو مٹانے کے لیے آیا ہے۔
چنانچہ انہوں نے اہل مصر کواس عمل سے روک دیا، اس پر بُؤونة، أَبيب اور مِسرى تین مہینے گزر گئے اور نیل بالکل نہ بہا، نہ کم نہ زیادہ،یہاں تک کہ اہلِ مصر نے ہجرت اور وطن چھوڑنے کا ارادہ کر لیا۔یہ صورت حال دیکھ کر حضرت عمروؓ نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو خط لکھا اور سارا ماجرا بیان کیا۔
حضرت عمرؓ نے جواب میں لکھا:’’تم نے درست کیا، اسلام پچھلی رسومات کو مٹا دیتا ہے۔ میں نے ایک رقعہ بھیجا ہے، جب میرا خط پہنچے تو اسے نیل میں ڈال دینا۔‘‘
جب وہ خط پہنچا تو حضرت عمروؓ نے پرچی کو کھولا، اس میں لکھا تھا:
’’اللہ کے بندے عمر بن خطاب امیرالمؤمنین کی طرف سے مصر کے نیل کے نام!
اما بعد! اگر تو اپنی طرف سے بہتا ہے تو نہ بہہ اور اگر تجھے اللہ واحد قہار بہاتا ہے تو ہم اللہ واحد قہار سے دعا کرتے ہیں کہ وہ تجھے بہا دے۔‘‘
چنانچہ حضرت عمروؓ نے وہ پرچی نیل میں ڈال دی اور یہ ’’یوم الصليب‘‘ (عیسائیوں کے تہوار) سے ایک دن پہلے کا واقعہ تھا۔ اہلِ مصر اس وقت تک نقل مکانی کے لیے تیار ہو چکے تھے۔
مگر اگلے دن، جو کہ ’’یوم الصليب‘‘ تھا، صبح ہوتے ہی اللہ تعالیٰ نے نیل کو جاری کر دیا اور وہ ایک ہی رات میں سولہ ہاتھ بلند ہو گیا۔
یوں اہلِ مصر کی وہ بری رسم ہمیشہ کے لیے ختم ہوگئی۔(فتوح مصر لابن عبد الحکم،ص:177)
تخریج القصۃ:
۱۔ابن عبدالحکیم(م۲۵۷ھ)نے’’فتوح مصر‘‘(ص:177،ط:مكتبة الثقافة الدينية)میں ذکر کیا ہے۔
۲۔ابوشیخ اصفہانی (م۳۶۹ھ)نے’’کتاب العظمة‘‘(4/1424،ط:دار العاصمة)میں ذکر کیا ہے۔
۳۔حافظ لالکائی(م۴۱۸ھ)نے’’کرامات الأولياء‘‘(9/126،رقم الحدیث:66،ط:دار طيبة)میں ذکر کیا ہے۔
۴۔ابن عساکر(م۵۷۱ھ)نے’’تاریخ دمشق‘‘(44/337،ط: دار الفكر) میں ذکر کیا ہے۔
۵۔علامہ ابن الجوزی(م۵۹۷ھ)نے’’المنتظم في تاريخ الأمم والملوك‘‘(4/294،ط:دار الكتب العلمية)میں ذکر کیا ہے۔
۶۔حافظ ابن کثیر (م۷۷۴ھ)نے’’البدایۃ والنہایۃ‘‘(1/27،ط: مطبعة السعادة) میں ذکر کیا ہے۔
خلاصۂ کلام:
ذکرکردہ واقعے کو کتب تاریخ کے حوالے سے بیان کیا جا سکتا ہے۔
فتوح مصر لابن عبد الحکم : (ص:177،ط:مكتبة الثقافة الدينية)
حدثنا عثمان بن صالح، عن ابن لهيعة، عن قيس بن الحجّاج، عمّن حدّثه، أتى أهلها إلى عمرو بن العاص حين دخل بؤونة من أشهر العجم، فقالوا له: أيّها الأمير إنّ لنيلنا هذا سنّة لا يجرى إلا بها، فقال لهم: وما ذاك؟ قالوا: إنه إذا كان لثنتى عشرة ليلة تخلو من هذا الشهر، عمدنا إلى جارية بكر بين أبويها فأرضينا أبويها وجعلنا عليها من الحلىّ والثياب أفضل ما يكون، ثم ألقيناها فى هذا النيل، فقال لهم عمرو: إن هذا لا يكون فى الإسلام، وإن الإسلام يهدم ما قبله، فأقاموا بؤونة وأبيب ومسرى لا يجرى قليلا ولا كثيرا حتى همّوا بالجلاء، فلما رأى ذلك عمرو كتب إلى عمر بن الخطاب بذلك. فكتب إليه عمر: قد أصبت، إن الإسلام يهدم ما كان قبله، وقد بعثت إليك ببطاقة فألقها فى داخل النيل إذا أتاك كتابى ، فلما قدم الكتاب على عمرو فتح البطاقة فإذا فيها: من عبد الله عمر أمير المؤمنين إلى نيل أهل مصر، أمّا بعد، فإن كنت تجرى من قبلك فلا تجر، وإن كان الله الواحد القهّار الذي يجريك فنسأل الله الواحد القهّار أن يجريك.فألقى عمرو البطاقة فى النيل قبل يوم الصليب بيوم، وقد تهيّأ أهل مصر للجلاء والخروج منها لأنه لا يقوم بمصلحتهم فيها إلا النيل، فأصبحوا يوم الصليب وقد أجراه الله ستّة عشر ذراعا فى ليلة، وقطع تلك السنّة السّوء عن أهل مصر.
أخرجه أبوالشيخ الأصبهاني في "كتاب العظمة"(4/1424) واللالكائي في "كرامات الأولياء"(9/126)(66) وابن عساكر في "تاريخ دمشق"(44/337)
بڑھیا کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کچرا پھینکنے کے واقعے کی تحقیق
یونیکوڈ تحقیق و تخریج حدیث 0’’خیبر کی فتح حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اور یہ کام انبیائے علیہم السلام میں سے کسی ایک سے بھی نہیں لیا گیا۔‘‘ کہنے والے کا حکم
یونیکوڈ تحقیق و تخریج حدیث 0