حضرت مفتی صاحب !
طلاق احسن اور طلاق حسن اور طلاق بدعت کے بارے میں آپ رہنمائی فرمائیں قرآن و حدیث کی روشنی میں
واضح رہے کہ طلاق دینے کےتین طریقے ہیں (1)طلاق احسن (2)طلاق حسن (3) طلاق بدعی
(1) طلاق احسن یہ ہے کہ آدمی اپنی بیوی کو ایک طلاق ایک ایسے طہر(پاکی) میں دے، جس میں بیوی سے مجامعت (صحبت) نہ کی ہو اورپھر چھوڑدے یہاں تک کہ عدت گزر جائے۔
(2) طلاق حسن یہ ہے کہ اپنی مدخولہ بیوی(جس سے شوہر صحبت کر چکا ہو) کو ایک طہر میں ایک طلاق دے، دوسرے طہر میں دوسری اور تیسرے طہر میں تیسری طلاق دے کر فارغ کردے۔
(3)طلاق بدعی یہ ہے کہ اپنی مدخولہ بیوی کو ایک طہر میں تین طلاق دے، چاہے ایک کلمہ کے ساتھ دے یامتفرق کلموں کے ساتھ، اسی طرح حالت حیض میں یاایسے طہر میں طلاق دینا جس میں جماع کیا ہے،یہ بھی طلاق بدعی ہے۔
صحيح البخاري: (7/ 41،ط:دارطوق النجاة)
عن أنس بن سيرين قال: سمعت ابن عمر قال: «طلق ابن عمر امرأته وهي حائض، فذكر عمر للنبي صلى الله عليه وسلم فقال: ليراجعها. قلت: تحتسب. قال: فمه» وعن قتادة، عن يونس بن جبير، عن ابن عمر قال: مره فليراجعها. قلت: تحتسب؟ قال: أرأيت إن عجز واستحمق.؟
الهندية: (1/ 348،ط:دارالفکر)
(وأما تقسيمه) فإنه نوعان سني وبدعي وكل واحد منهما نوعان نوع يرجع إلى العدد ونوع يرجع إلى الوقت. . .(أما) الطلاق السني في العدد والوقت فنوعان حسن وأحسن فالأحسن أن يطلق امرأته واحدة رجعية في طهر لم يجامعها فيه ثم يتركها حتى تنقضي عدتها أو كانت حاملا قد استبان حملها والحسن أن يطلقها واحدة في طهر لم يجامعها فيه ثم في طهر آخر أخرى ثم في طهر آخر أخرى كذا في محيط السرخسي.....وأما البدعي) فنوعان بدعي لمعنى يعود إلى العدد وبدعي لمعنى يعود إلى الوقت (فالذي) يعود إلى العدد أن يطلقها ثلاثا في طهر واحد أو بكلمات متفرقة أو يجمع بين التطليقتين في طهر واحد بكلمة واحدة أو بكلمتين متفرقتين فإذا فعل ذلك وقع الطلاق وكان عاصيا. (والبدعي) من حيث الوقت أن يطلق المدخول بها وهي من ذوات الأقراء في حالة الحيض أو في طهر جامعها فيه وكان الطلاق واقعا ويستحب له أن يراجعها والأصح أن الرجعة واجبة هكذا في الكافي.
بیوی کا شوہر سے کہنا کہ آپ مجھے میرے بھائی کی طرح پیارے ہیں یا میں آپ کو اپنے بھائی کی طرح پیار کرتی ہوں
یونیکوڈ طلاق 0