کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک کمپنی اس طور پر انشورنس کرواتی ہے کہ دس سال تک آپ نے سالانہ پچپن ہزار روپے جمع کرانے ہوں گے اور بیس سال کے بعد آپ کو کمپنی پچاس لاکھ روپے دے گی اس کے متعلق کیا حکم ہے ؟
انشورنس کے مروجہ جتنے طریقے ہیں ،ان میں سود اور قمار(جوا)پایا جاتا ہے جو کہ شرعا حرام ہے۔ انشورنس کمپنی سے اتنی ہی رقم وصول کرنا جائز ہے جتنی رقم جمع کرائی گئی ہے، اس سے زیادہ وصول کرنا ناجائز اور حرام ہے ۔
القرآن الکریم:) البقرة2: 275(
وَأَحَلَّ ٱللَّهُ ٱلۡبَيۡعَ وَحَرَّمَ ٱلرِّبَوٰاْۚ ۔
سنن الترمذي:(رقم الحديث: 1206، ط:دارالغرب الاسلامي)
عن ابن مسعود قال: لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم آكل الربا وموكله وشاهديه وكاتبه.
الشامية :(5/ 166، ط : دارالفكر)
(قوله كل قرض جر نفعا حرام) أي إذا كان مشروطا .
الفقه الحنفي:(334/4 ، ط :دارالقلم )
قولہ : فمن زاد او ازداد فقد اربیٰ معناہ فقد فعل الربا المحرم فدافع الزیادۃ واخذھا عاصیان .