کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ مسجد کی از سر نو تعمری کے لیے مسجد کی اضافی زمین کو فروخت کیا جاسکتا ہے جب کہ اس کاکوئی متولی نہ ہو اور محلے والے غریب ہوں اس کے فروخت نہ کرنے کی صورت میں جگہ کی تنگی کاسامنا ہو ؟
برائے مہربانی ! شریعت مطہرہ کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں ۔
واضح رہے کہ جو زمین مسجد کے لیے وقف کر دی گئی ہو اس کی خرید وفروخت جائز نہیں ہے ہاں اگر وقف کرنے والے نے یہ وقف کرتے وقت یہ کہا تھا کہ اگر اس زمین کو اس کی موجودہ حالت میں مسجد کے استعمال میں نہ لایا جاسکتا ہواور مسجد کو ضرورت بھی ہو تو اس زمین کو فروخت کرکے مسجد کی ضروریات کو پورا کردیا جائے تو ایسی صورت میں اس اضافی زمین کو فروخت کرنے کی اجازت ہوگی ۔
صحيح البخاري:(3/ 199، رقم الحديث : 2737 ،ط: دار طوق النجاة )
عن ابن عمر رضي الله عنهما: «أن عمر بن الخطاب أصاب أرضا بخيبر، فأتى النبي صلى الله عليه وسلم يستأمره فيها، فقال: يا رسول الله، إني أصبت أرضا بخيبر، لم أصب مالا قط أنفس عندي منه، فما تأمر به؟ قال: إن شئت حبست أصلها وتصدقت بها، قال: فتصدق بها عمر، أنه لا يباع ولا يوهب ولا يورث، وتصدق بها في الفقراء.
الدرالمختار:(4/ 338، ط:دارالفكر)
هو حبسها على) حكم (ملك الله تعالى وصرف منفعتها على من أحب) ولو غنيا فيلزم، فلا يجوز له إبطاله ولا يورث عنه وعليه الفتوى .
الهندية:(2/ 350، ط:دارالفكر)
حبس العين على حكم ملك الله تعالى على وجه تعود منفعته إلى العباد فيلزم ولا يباع ولا يوهب ولا يورث كذا في الهداية .
موروثی زمین تقسیم سے پہلے وقف کرنا اور محلے میں ایک مسجد کے ہوتے ہوئے دوسری مسجد بنانا
یونیکوڈ وقف 0موروثی زمین تقسیم سے پہلے وقف کرنا اور محلے میں ایک مسجد کے ہوتے ہوئے دوسری مسجد بنانا
یونیکوڈ وقف 0