مسئلہ یہ ہے کہ کسی شخص نے 6 کنال زمین مسجد کے لیے وقف کی اس میں سے 2 کنال مسجد کی توسیع میں شامل ہوگئی اور باقی 4 کنال مسجد کے امام کو بطور عارضی استعمال دی گئی واقف نے یہ زمین سرکاری کاغذات میں بھی مسجد کے نام منتقل کر دی، پھر واقف کا انتقال ہوگیا ان کی کوئی اولاد نہیں، صرف بیوہ ہےاور بھائی ہے اب واقف کی بیوہ اور بھائی وہ زمین واپس لینا چاہتے ہیں۔
1) سوال یہ ہے: کیا وقف شدہ زمین واپس لی جا سکتی ہے؟ اگر واپس لی جائے تو کیا گناہ ہوگا؟اگر واپس دی گئی تو کیا ساری بیوہ کو ملے گی یا دیگر ورثاء (بھائی، بہن) کا بھی حصہ ہوگا۔
2)کیا ورثاء اس کو بطور ولایت کے سکتے ہیں؟
3)اس زمین کی آمدن کسی دوسری مسجد یا مدرسے میں استعمال کی جاسکتی ہے؟
واضح رہے کہ وقف ایک عظیم صدقۂ جاریہ ہے، جو کسی چیز کو اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے اس طرح مخصوص کرنے کا نام ہے کہ وہ ہمیشہ اسی مقصد میں استعمال ہو، وقف کی گئی زمین وقف کرنے کے بعد واقف کی ملکیت سے نکل کر اللہ تعالیٰ کی ملکیت میں داخل ہو جاتی ہے، اس پر نہ واقف کا ذاتی اختیار باقی رہتا ہے، نہ ہی اس میں میراث جاری ہوتی ہے اور نہ ہی اس کے ورثا کو اس میں کسی قسم کے تصرف کا حق حاصل ہوتا ہے۔
وقف شدہ زمین کو بیچنا، واپس لینا، کرایہ پر دینا یا طے شدہ مقصد کے علاوہ کسی اور مصرف میں لگانا شرعاً ناجائز ہے ،اس کا انتظام صرف متولی کے پاس ہوتا ہےاور وہ بھی وقف کے اصل مقصد اور اس کے مفاد کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہی کوئی فیصلہ کر سکتا ہے۔
متولی وہ شخص ہوگا جسے واقف نے مقرر کیا ہو، اگر مقرر نہ کیا ہو تو ورثا میں سے اہل شخص متولی بنے گا اور اگر کوئی اہل نہ ہو تو اہلِ محلہ کسی دیانت دار شخص کو متعین کریں گے۔
لہٰذا اگر زمین مسجد کے لیے وقف کی گئی ہو تو وہ ہمیشہ مسجد کے ہی کام میں آئے گی۔ اس میں ذاتی، تجارتی یا کسی غیر متعلقہ استعمال کی اجازت نہیں ہے اور نہ ہی ایک مسجد کی آمدن دوسری مسجد یا مدرسے میں لگا سکتے ہیں، ایسا کرنا شرعاً ناجائز ہے۔
فتح القدير وتكملته:(220/6،ط: دار الفكر)*
(قوله وإذا صح الوقف) أي لزم، وهذا يؤيد ما قدمناه في قول القدوري وإذا صح الوقف خرج عن ملك الواقف. ثم قوله (لم يجز بيعه ولا تمليكه) هو بإجماع الفقهاء (إلا أن يكون مشاعا فيطلب شريكه القسمة عند أبي يوسف فتصح مقاسمته.
*البناية شرح الهداية:(430/7،ط: دار الكتب العلمية)*
وإذا صح خرج من ملك الواقف، ولم يدخل في ملك الموقوف عليه؛ لأنه لو دخل في ملك الموقوف عليه، لا يتوقف عليه،
*الهندية:(252/2،ط: دارالفكر)*
وأما حكمه فعندهما زوال العين عن ملكه إلى الله تعالى وعند أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - حكمه صيرورة العين محبوسة على ملكه بحيث لا تقبل النقل عن ملك إلى ملك.
*الهندية:(408/2،ط: دارالفكر)*
الصالح للنظر من لم يسأل الولاية للوقف وليس فيه فسق يعرف هكذا في فتح القدير وفي الإسعاف لا يولى إلا أمين قادر بنفسه أو بنائبه ويستوي فيه الذكر والأنثى وكذا الأعمى والبصير وكذا المحدود في قذف إذا تاب، ويشترط في الصحة بلوغه وعقله.
*البحر الرائق:(244/5،ط: دارالكتاب الإسلامي)*
وفي الإسعاف لا يولى إلا أمين قادر بنفسه أو بنائبه لأن الولاية مقيدة بشرط النظر وليس من النظر تولية الخائن لأنه يخل بالمقصود وكذا تولية العاجز لأن المقصود لا يحصل به ويستوي فيه الذكر والأنثى وكذا الأعمى والبصير وكذا المحدود في قذف إذا تاب لأنه أمين. رجل طلب التولية على الوقف قالوا لا يعطى له وهو كمن طلب القضاء لا يقلد اهـ.
موروثی زمین تقسیم سے پہلے وقف کرنا اور محلے میں ایک مسجد کے ہوتے ہوئے دوسری مسجد بنانا
یونیکوڈ وقف 0موروثی زمین تقسیم سے پہلے وقف کرنا اور محلے میں ایک مسجد کے ہوتے ہوئے دوسری مسجد بنانا
یونیکوڈ وقف 0