السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عورت اگر عدت اپنے والدین کے گھر گزارے تو کیا نان نفقہ شوہر پر واجب ہوگا ؟
دونوں صورتوں کی وضاحت ہو کہ والدین کے گھر کسی مجبوری کی بنا پر گئی ہو یا بغیر مجبوری کے گئی ہو۔
واضح رہے کہ معتدہ (عدت گزارنے والی عورت) کے لیے اصل یہ ہے کہ وہ شوہر کے گھر ہی عدت گزارے، بغیر کسی عذر کے والدین کے گھر عدت گزارنا جائز نہیں اور ایسی صورت میں شوہر پر اس کا نان و نفقہ لازم نہیں ہوگا۔
البتہ اگر کسی عذر و مجبوری کی وجہ سے، جیسے کہ شوہر کے ظلم یا کسی اور معقول وجہ سے، عورت اپنے والدین کے گھر عدت گزارنے پر مجبور ہو تو ایسی صورت میں عدت کا نان و نفقہ شوہر کے ذمے ہی لازم ہوگا۔
الهندية: (1/ 545،ط:دارالفکر)*
وإن نشزت فلا نفقة لها حتى تعود إلى منزله والناشزة هي الخارجة عن منزل زوجها المانعة نفسها منه بخلاف ما لو امتنعت عن التمكن في بيت الزوج لأن الاحتباس قائم حتى، ولو كان المنزل ملكها فمنعته من الدخول عليها لا نفقة لها إلا أن تكون سألته أن يحولها إلى منزله أو يكتري لها منزلا، وإذا تركت النشوز فلها النفقة، ولو كان يسكن في أرض الغصب فامتنعت منه لها النفقة كذا في الكافي.
*المحيط البرهاني: (3/ 519،ط:دارالکتب العلمیة)*
فإن كان الزوج قد طالبها بالنقلة فإن لم تمتنع عن الانتقال إلى بيت الزوج لها النفقة أيضاً، وأما إذا امتنعت عن الانتقال، فإن كان الامتناع لحق بأن امتنعت لتستوفي مهرها فلها النفقة لأن إيفاء المهر واجب على الزوج، ولها حق حبس نفسها عن الزوج إلى أن تستوفي المهر فإنما حبست نفسها بسبب فوات مهرها.