مفتی صاحب ! زید فوت ہوگیا ہے اوراس کی بیوی عدت گزار رہی ہے اور وہ (بیوی ) بیمار ہے تو کیا وہ اس بیماری کی وجہ سے علاج کے لیے ڈاکٹر کے پاس جا سکتی ہے یا نہیں ؟
شریعت نے عدت کے دوران عورت کو گھر میں رہنے کا پابند کیا ہے ، اس دوران بغیر کسی عذر شرعی کے گھر سے نکلنا (چاہے دن میں ہو یا رات میں) جائز نہیں ہے، تاہم شرعی عذر کی بنیاد پر عورت کے لیے گھرسےجانے کی اجازت ہے،لہذا ذکرکردہ صورت میں اگر گھر میں رہ کر علاج کی کوئی صورت ممکن نہ ہو اور کوئی دوا لاکر دینے والا بھی نہ ہوتو ڈاکٹر کو دکھانے کے لیے گھر سے باہر جانےکی اجازت ہے ،البتہ اس بات کی پوری کوشش کی جائے کہ دن کے وقت میں ڈاکٹر کے پاس جائے اور رات ہونے سے پہلے پہلے گھر واپس آجائے ۔
الشامية :(3/ 536، ط:دارالفكر)
(وتعتدان) أي معتدة طلاق وموت (في بيت وجبت فيه) ولا يخرجان منه (إلا أن تخرج أو يتهدم المنزل، أو تخاف) انهدامه، أو (تلف مالها، أو لا تجد كراء البيت) ونحو ذلك من الضرورات فتخرج لأقرب موضع إليه .
الفقه الإسلامي وأدلته :(9/ 7198، ط:دارالفكر)
فقالوا: يحرم على المطلقة البالغة العاقلة الحرة المسلمة المعتدة من زواج صحيح الخروج ليلاً ونهاراً، سواء أكان الطلاق بائناً أم ثلاثاً أم رجعياً، لقوله تعالى في الطلاق الرجعي: {لا تخرجوهن من بيوتهن ... وأما المتوفى عنها: فلا تخرج ليلاً، ولا بأس أن تخرج نهاراً في حوائجها؛ لأنها تحتاج إلى الخروج بالنهار لاكتساب ما تنفقه؛ لأنه لا نفقة لها من الزوج المتوفى، بل نفقتها عليها، فتحتاج إلى الخروج لتحصيل النفقة، ولا تخرج بالليل، لعدم الحاجة إلى الخروج بالليل، بخلاف المطلَّقة، فإن نفقتها على الزوج، فلا تحتاج إلى الخروج.