کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس بارے میں
1 زرین نے پچاس سال پہلے اپنی پوری زمین ظفر پر گروی رکھی تھی ۔
2500 روپے پر ۔
2 ظفر فوت ہوا ہے اور انکے ورثا میں تین بیٹیاں اور دو بیٹے تھے، ایک بیٹا ظفر کا ابھی فوت ہوا ہے اور ایک بیٹی کا شوہر فوت ہوا ہے، دونوں کے یتیم بچے رہ گئے ہیں ۔
3 زرین کی زمین میں ایک بہن بھی شریک تھی، زرین اور بہن بھی دونوں فوت ہوئے ہیں ۔
زرین کے ورثا میں ایک بیٹا اور ایک بیٹی ہے اور زرین کی بہن نے شادی نہیں کی تھی اس کے فوت ہونے کے بعد اس کی زمین پٹواریوں نے اس کے دو بھانجوں اور ایک بھانجی کے نام کر دی۔
4 زرین کی بیٹی نے شادی کی اور اپنا کچھ حصہ دوسرے لوگوں پر فروخت کر دیا ۔
موقع پر زمین کی تقسیم نہیں ہوئی ہے۔ زمین میں کسی کو اپنے حصے کا پتہ نہیں اور رھن بھی ہے۔
ابھی زرین کے بیٹے نے ایک وقف اقرار نامہ برائے مسجد دیا ہے ۔
محلہ تیرہ چودہ گھروں پر مشتمل ہے پہلے سے ایک مسجد موجود ہے جو ہر گھر سے آدمی سات آٹھ منٹ میں مسجد پہنچتا ہے پہلی مسجد میں بھی لوگ نہیں اتے دو تین آدمی شریک ہو تے ہیں ۔ کیا ایسی صورت میں اس زمین پر مسجد بنانا جائز ہے جو کہ گروی بھی ہے اور تقسیم بھی نہیں ہوئی ہے اور پہلی مسجد بھی متاثر ہوتی ہے ۔
صرف اپنے سمجھنے کیلئے لکھا ہے ۔
ذکر کی گئی صورت میں زرین کے بیٹے کا مشاع (غیر تقسیم شدہ) زمین میں سے تقسیم سے پہلے اپنے حصے کو وقف کرنا جائز ہے، لیکن واضح رہے کہ اگر کسی محلہ میں ایک مسجد پہلے سے موجود ہو اور وہ اہل محلہ کے لیے کافی ہو، وہاں دوسری مسجد تعمیر کرنے کی وجہ سے پہلی مسجد کے ویران ہونے کا اندیشہ ہو تو اس محلہ میں دوسری مسجد تعمیر کرنا درست نہیں ۔
*تفسير الثعلبي:(52/14،ط:دارالتفسير)*
قال عطاء: لما فتح عمر بن الخطاب رضي الله عنهم الأمصار أمر المسلمين أن يبنوا المساجد، وأمرهم أن لا يتخذوا في مدينتهم مسجدين يضار أحدهما صاحبه .
وروى ليث أن شقيقًا لم يدرك الصلاة في مسجد بني غاضرة ، فقيل له: مسجد بني فلان لم يصلّوا بعد، فقال: لا أحب أن أصلي فيه، فإنه بني على ضرار، وكل مسجد بني ضرارًا ورياءً وسمعة فإن أصله ينتهي إلى مسجد الضرار .
*مرقاۃ المفاتیح:(604/2،ط:دارالفكر)*
"وقال البغوي: قال عطاء: لما فتح الله تعالى على عمر رضي الله عنه الأمصار، أمر المسلمين ببناء المساجد، وأمرهم أن لا يبنوا مسجدين يضار أحدهما الآخر، ومن المضارة فعل تفريق الجماعة إذا كان هناك مسجد يسعهم، فإن ضاق سن توسعته أو اتخاذ مسجد يسعهم."
*الشامیة(362/2،ط: دارالفکر)*
قوله لما صح وقف مشاع قضى بجوازه ويصير بالقضاء متفقا عليه والخلاف في وقف المشاع مبنى على اشتراط التسليم وعدمه لان القسمة من تمامه ، فابو يوسف اجازه لانه لم يشترط التسليم.
*الهندية :(365/2،ط: دارالفکر)*
وقف المشاع المحتمل للقسمة لا يجوز عند محمد رحمه الله تعالی --- والمتاخرون افتوا بقول. ابی یوسف رحمه الله تعالى انه يجوز وهو المختار كذا في خزانة المفتين.
*فتاوی محمودیہ:(2955/19،ط فاروقیہ)*
مشترک جائیدادوں میں سے جس کا دل چاہے اپنا حصہ فروخت کردے یا وقف کر دے ، کسی شریک کو اعتراض کا حق نہیں، وقف تام اور لازم ہو جانے کے بعد اس کو توڑا نہیں جا سکتا ۔
موروثی زمین تقسیم سے پہلے وقف کرنا اور محلے میں ایک مسجد کے ہوتے ہوئے دوسری مسجد بنانا
یونیکوڈ وقف 0موروثی زمین تقسیم سے پہلے وقف کرنا اور محلے میں ایک مسجد کے ہوتے ہوئے دوسری مسجد بنانا
یونیکوڈ وقف 0