ایک لڑکی کو طلاق ہوگئی اس نے ماں باپ کی رضامندی کے بغیر شادی کی تھی تو طلاق کے بعد ماں باپ نے اپنے گھر میں سہارا نہیں دیا تو اس عورت نے اپنی عدت کا وقت کسی دوسرے دوست وغیرہ کے گھر میں رہ کر گزارا اور اپنے اخراجات کے لیے فیکڑی میں نوکری بھی شروع کردی لیکن اب اس کے کسی رشتہ دار نے کہا کہ تم نے عدت نہیں کی تو تم پر اللہ کی طرف سے عذاب ہوگا اب وہ لڑکی جب سے بے چین ہے کہ کیا کرے براہ کرم رہنمائی فرمائیں
واضح رہے کہ طلاق کے وقت شوہر کے جس گھر میں عورت کی رہائش ہو اس میں عورت کے لیے عدت گزارنا ضروری ہے اور اس کا نان و نفقہ بھی شوہر پر لازم ہے، اگر عورت کسی مجبوری سے عدت کہیں اور گزار رہی ہے اور اس کے نان و نفقہ کا کوئی بھی دوسرا ذریعہ نہ ہو تو اس کے لیے دن میں کام کے لیے نکلنا جائز ہے، رات کو واپس گھر آنا ضروری ہے، لہذا رشتے داروں کی باتیں بے بنیاد ہیں، اس صورت میں عورت گنہگار نہیں ہوگی۔
الشامية:(536/3،ط، دارالفکر)*
(وتعتدان) أي معتدة طلاق وموت (في بيت وجبت فيه) ولا يخرجان منه (إلا أن تخرج أو يتهدم المنزل، أو تخاف) انهدامه، أو (تلف مالها، أو لا تجد كراء البيت) ونحو ذلك من الضرورات فتخرج لأقرب موضع إليه.
*الهندية:(535/1،ط:دارالفکر)*
إن اضطرت إلى الخروج من بيتها بأن خافت سقوط منزلها أو خافت على مالها أو كان المنزل بأجرة ولا تجد ما تؤديه في أجرته في عدة الوفاة فلا بأس عند ذلك أن تنتقل ۔۔۔ لو كانت بالسواد قد دخل عليها الخوف من سلطان أو غيره كانت في سعة من التحول إلى المصر كذا في المبسوط المعتدة إذا كانت في منزل ليس معها أحد وهي لا تخاف من اللصوص ولا من الجيران ولكنها تفزع من أمر المبيت إن لم يكن الخوف شديدا ليس لها أن تنتقل من ذلك الموضع وإن كان الخوف شديدا كان لها أن تنتقل كذا في فتاوى قاضي خان.