السلام علیکم ورحمۃ اللہ تعالی وبرکاتہ کیا فرماتے ہیں مفتیان گرامی اس مسئلے کے بارے میں کہ ایک شخص میڈیکل سٹور چلاتا ہے وہ کسی کمپنی کو ڈیل کر کے اسے دوائیاں لیتا ہے دوائیاں لینے کے بعد وہ اس کا مالک بن جاتا ہے تو کیا خردہ قیمت جو ایک ڈبی بر لکھی ہوتی ہے اس کی قیمت پر اس کو فروخت کرنا لازم ہے یا اپنی مرضی کی قیمت سے اس کو فروخت کر سکتے ہیں؟
قرآن اور حدیث کی روشنی میں اس کا جواب عنایت فرمائیں جزاک اللہ خیرا
الجواب باسم ملہم الصواب
واضح رہے کہ جب کوئی شخص کسی چیز کو خرید لیتا ہے تو وہ اس کا مالک بن جاتا ہے، اب وہ اپنی خریدی ہوئی چیز کو جس قیمت پر چاہے آگے فروخت کر سکتا ہے، بشرطیکہ وہ قیمت مارکیٹ کے عام ریٹ سے بہت زیادہ نہ ہو۔
لہٰذا!اگر کسی شخص نے دوائیاں خرید لی ہیں تو وہ ان کا مالک بن چکا ہے، اب وہ انہیں اپنی مرضی کے مطابق فروخت کر سکتا ہے، چاہے اس کی قیمت ڈبے پر لکھی ہوئی قیمت سے مختلف ہو،البتہ اگر حکومت کی طرف سے قانونی طور پر قیمت مقرر ہو تو اس کی پابندی بھی ضروری ہے۔
دلائل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الشامیة:(5/ 143،ط:دارالفکر)
قوله: هو ما لا يدخل تحت تقويم المقومين) هو الصحيح كما في البحر، وذلك كما لو وقع البيع بعشرة مثلا، ثم إن بعض المقومين يقول إنه يساوي خمسة، وبعضهم ستة وبعضهم سبعة فهذا غبن فاحش؛ لأنه لم يدخل تحت تقويم أحد بخلاف ما إذا قال بعضهم: ثمانية وبعضهم تسعة وبعضهم: عشرة فهذا غبن يسير.
الهندية:(214/3، ط: دار الفکر)
ولا يسعر بالإجماع إلا إذا كان أرباب الطعام يتحملون ويتعدون عن القيمة وعجز القاضي عن صيانة حقوق المسلمين إلا بالتسعير فلا بأس به إلا بمشورة أهل الرأي والبصر هو المختار وبه يفتى كذا في الفصول العمادية فإن سعر فباع الخباز بأكثر مما سعر جاز بيعه كذا في فتاوى قاضي خان.
واللہ تعالی اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ دارالعلوم حنفیہ،کراچی