سوال : كيا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ تکافل جائز ہے یا نہیں ؟
الجواب باسم ملہم الصواب
واضح رہے کہ تکافل مروجہ انشورنس کے متبادل کے طور پر بنایا گیا نظام ہے۔ یہ نظام مستند علمائے کرام کی نگرانی میں اور اسلامی اصولوں کے مطابق چلایا جاتا ہے،اگر کوئی تکافل کمپنی واقعی علمائے کرام کی رہنمائی میں شریعت کے مطابق کام کر رہی ہے تو اس کے ساتھ معاملہ کرنے کی گنجائش ہے، البتہ ضروری ہے کہ وقتاً فوقتاً معلومات حاصل کرتے رہیں، تاکہ بعد میں اگر خدا نخواستہ کمپنی کا طریقہ کار شریعت کے اصولوں سے ہٹنے لگے تو اس وقت کی صورتحال کا حکم معلوم کیا جاسکے۔
دلائل:
القرآن الکریم:المائدہ5: (2)
﴿يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ لَا تُحِلُّواْ شَعَٰٓئِرَ ٱللَّهِ وَلَا ٱلشَّهۡرَ ٱلۡحَرَامَ وَلَا ٱلۡهَدۡيَ وَلَا ٱلۡقَلَٰٓئِدَ وَلَآ ءَآمِّينَ ٱلۡبَيۡتَ ٱلۡحَرَامَ يَبۡتَغُونَ فَضۡلٗا مِّن رَّبِّهِمۡ وَرِضۡوَٰنٗاۚ وَإِذَا حَلَلۡتُمۡ فَٱصۡطَادُواْۚ وَلَا يَجۡرِمَنَّكُمۡ شَنَـَٔانُ قَوۡمٍ أَن صَدُّوكُمۡ عَنِ ٱلۡمَسۡجِدِ ٱلۡحَرَامِ أَن تَعۡتَدُواْۘ وَتَعَاوَنُواْ عَلَى ٱلۡبِرِّ وَٱلتَّقۡوَىٰۖ وَلَا تَعَاوَنُواْ عَلَى ٱلۡإِثۡمِ وَٱلۡعُدۡوَٰنِۚ وَٱتَّقُواْ ٱللَّهَۖ إِنَّ ٱللَّهَ شَدِيدُ ٱلۡعِقَابِ ﴾
صحيح مسلم:(5/ 138،ط:دارطوق النجاۃ) (1728) حدثنا شيبان بن فروخ ، حدثنا أبو الأشهب ، عن أبي نضرة ، عن أبي سعيد الخدري قال: « بينما نحن في سفر مع النبي صلى الله عليه وسلم، إذ جاء رجل على راحلة له قال: فجعل يصرف بصره يمينا وشمالا، فقال: رسول الله صلى الله عليه وسلم: من كان معه فضل ظهر فليعد به على من لا ظهر له، ومن كان له فضل من زاد فليعد به على من لا زاد له. قال: فذكر من أصناف المال ما ذكر، حتى رأينا أنه لا حق لأحد.
صحيح البخاري(رقم الحدیث:5665،ط:دار طوق النجاۃ
حدثنا أبو نعيم: حدثنا زكرياء، عن عامر قال: سمعته يقول: سمعت النعمان بن بشير يقول:قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: (ترى المؤمنين: في تراحمهم، وتوادهم، وتعاطفهم، كمثل الجسد، إذا اشتكى عضوا، تداعى له سائر جسده بالسهر والحمى).
واللہ تعالی اعلم باالصواب
دارالافتاءجامعہ دارالعلوم حنفیہ (نعمان بن ثابت) کراچی