کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہر ایک آدمی صحرا میں فوت ہوگیا اور کسی کو اس کے فوت ہونے کا علم نہ ہوا اس کے تین دن کے بعد اس کی لاش کسی غیر آدمی کو ملی اور اس نے اس میت کو بغیر غسل وجنازہ کے دفنا دیا اس کے بعد اس کے ورثاء کو اس کے بارے میں معلوم ہوا اب وہ اس کی قبر پر جنازہ پڑھنا چاہتے ہیں اس کا کیا حکم ہے ؟
واضح رہے کہ میت پر جنازہ پڑھنا واجب ہے جنازہ ادا کئے بغیر میت کو دفن کرنے والے لوگ گناہ گار ہیں بلکہ جتنے لوگون کو اطلاع ملی اور انہوں اس کے باوجود بغیر جنازہ کے دفنا دیاوہ سب گناہ گار ہوں گے
لہذا مذکورہ صورت میں قبر پر نماز جنازہ پڑھنے میں یہ تفصیل ہے کہ اگر میت کی لاش قبر میں پھٹنے اور گلنے کا گمان نہ ہو تواس کی قبر پر نماز جنازہ پڑھی جائے اور پھٹنے گلنے کی حد علماء کرام نے تین دن بیان کی ہے لیکن صحیح بات یہ ہے کہ تین دن کی کوئی قید نہیں ہے جب تک میت کے پھٹنے گلنے کاگمان نہ ہوتو جنازہ ادا کرنا فرض ہے اور اگر پھٹنے اور گلنے کا گمان غالب ہو تو جنازہ پڑھنے کی اجازت نہیں ہوگی اور بلا نماز جنازہ دفنانے والے سب لوگ گناہ گار ہوں گے ان پر توبہ و استغفار لازم ہے ۔
الهندية:(1/ 162، ط :دارالفكر)
الصلاة على الميت) الصلاة على الجنازة فرض كفاية إذا قام به البعض واحدا كان أو جماعة ذكرا كان أو أنثى سقط عن الباقين وإذا ترك الكل أثموا، هكذا في التتارخانية وشرطها إسلام الميت وطهارته ما دام الغسل ممكنا وإن لم يمكن بأن دفن قبل الغسل ولم يمكن إخراجه إلا بالنبش تجوز الصلاة على قبره للضرورة .
حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح :(ص591، ط : دار الكتب العلمية بيروت )
"وإن دفن" وأهيل عليه التراب "بلا صلاة" لأمر اقتضى ذلك "صلى على قبره وإن لم يغسل" لسقوط شرط طهارته لحرمة نبشه وتعاد لو صلي عليه قبل الدفن بلا غسل لفساد الأولى بالقدرة على تغسيله قبل الدفن وقي تنقلب صحيحة لتحقق العجز ولو لم يهل التراب يخرج فيغسل ويصلى عليه "ما لم يتفسخ" والمعتبر فيه أكبر الرأي على الصحيح لاختلافه باختلاف الزمان والمكان .