مفتی صاحب!
ایک آدمی کے والد کا انتقال ہوا ہے اور ان کے ذمے لوگوں کا قرض تھا ان کا بیٹا والد کے نام پر چالیسواں کرنا چاہتا ہے، سوال یہ ہے کہ چونکہ قرض ادا کرنا ضروری ہے تو چالیسواں کرسکتا ہے ؟
واضح رہے کہ میت کے لیے وقت اورجگہ کی تعیین کیے بغیر ایصال ثواب کرنا ہر وقت اور ہر جگہ جائز ہے اور میت کو اس کا ثواب ملتا ہے، لیکن اس کے لیے کوئی دن متعین کرنا (مثلاً تیجہ، چالیسواں) اور اس کو لازم سمجھنا جائز نہیں۔
نیز واضح رہے کہ میت کے مال میں سے سب سے پہلے اس کے ذمے جو قرضے ہیں، ان کو ادا کرنا ضروری ہے، لہذا پوچھی گئی صورت میں میت کے ذمے جو قرض ہے اس کو ادا کیا جائے اور چالیسواں چونکہ بدعت ہے، اس لیے اس سے احتراز کیا جائے۔
صحيح البخاري:(184/3رقم الحديث:2697،ط:دار طوق النجاة)*
حدثنا يعقوب: حدثنا إبراهيم بن سعد، عن أبيه، عن القاسم بن محمد، عن عائشة رضي الله عنها قالت: قال رسول الله ﷺ: من أحدث في أمرنا هذا ما ليس فيه فهو رد.
*الشامية:(665/6،ط: دارالفكر)*
ويكره اتخاذ الضيافة من الطعام من أهل الميت لأنه شرع في السرور لا في الشرور وهي بدعة مستقبحة.
*ایضاً:(760/6)*
(ثم) تقدم (ديونه التي لها مطالب من جهة العباد) ويقدم دين الصحة على دين المرض إن جهل سببه وإلا فسيان كما بسطه السيد، (وأما دين الله تعالى فإن أوصى به وجب تنفيذه من ثلث الباقي وإلا لا.