کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک آدمی نے ایک زمین جنازہ گاہ کے لیے وقف کتردی وقف کرنے والا آدمی مرگیا لیکن جب سے وہ آدمی مرگیا اس زمین سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا گیا اور اس زمین نے کیے راستے کی کوئی صورت بن نہیں سکتی چاروں اطراف والے اس زمین کے لیے راستہ نہیں چھوڑتے تواگر یہ زمین ہم بیچ دیں اور اس کی رقم سے دوسری زمین مقبرے کے لیے خرید لیں تویہ زمین خریدنا جائز ہے یا ناجائز ؟اور جنازہ گاہ والے زمیان میں اابھی تک ایک جنازہ نہیں پڑھاگیا اور وقف کرنے والے کے ورثاء بھی موجود ہیں اور وہ بھی چاہتے ہیں کہ یہ زمیان بیچا جائے تو ہم یہ زمیان بیچ سکتے ہیں یا نہیں ؟
واضح رہے کہ وقف کی گئی زمین ہمیشہ کے لیے وقف کرنے والے کی ملکیت سے نکل کر اللہ تعالیٰ کی ملکیت میں چلی جاتی ہے اور وقف مکمل ہونے کے بعد اس کو بیچنا،کسی کو ہبہ کرنا یا وقف تبدیل کرنا جائز نہیں، لہذا پوچھی گئی صورت میں وقف کی گئی زمین کو بیچ کر تبدیل کرنا جائز نہیں ہے ۔
الفتاوى الهندية: (2/ 350، ط :دار الفكر)
وعندهما حبس العين على حكم ملك الله تعالى على وجه تعود منفعته إلى العباد فيلزم ولا يباع ولا يوهب ولا يورث كذا في الهداية وفي العيون واليتيمة إن الفتوى على قولهما.
حاشية ابن عابدين: (57/5 ط: سعید)
والحاصل أن ههنا مسألتين: الأولى أن بيع الوقف باطل ولو غير مسجد.
فتح القدیر:(220/6، ط:دار الفکر )
(قوله: وإذا صح الوقف) أي لزم، وهذا يؤيد ما قدمناه في قول القدوري وإذا صح الوقف خرج عن ملك الواقف. ثم قوله (لم يجز بيعه ولا تمليكه) هو بإجماع الفقهاء.
واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب
دارالافتاء جامعہ دارالعلوم حنفیہ،کراچی