کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ چار بھائیوں میں ایک مکان مشترک تھا ان میں سے ایک بھائی نے باقی تین سے کہا کہ آپ لوگ اپنے اپنے حصے مجھے بیچ دیں ،بھائیوں نے رضامندی کا اظہار کرتے ہوئے اس کو اسٹاپ پیپر پر لکھ کر دے دیا کہ ہم نے اپنا حصہ آپ کو بیچ دیا ہے ۔اس بات کو 13 سال ہوچکے ہیں جب کہ خریدنے والے بھائی نے ان کو مکان کی قیمت ادا نہیں کی ۔
اب پوچھنا یہ ہے کہ محض اسٹاپ پیپر پر لکھنے سے مکان میں ملکیت ثابت ہوتی ہے یا نہیں ؟
واضح رہے کہ جس طرح زبانی ایجاب و قبول سے بیع منعقد ہوتی ہے، اسی طرح تحریر سے بھی بیع منعقد ہو جاتی ہے، لہذا پوچھی گئی صورت میں جب تینوں بھائیوں نے اپنا حصہ ایک بھائی کو فروخت کر دیا اور اسٹام پیپر پر دستخط بھی کر دیے تو یہ بیع ہو چکی، خریدنے والے بھائی پر طے شدہ وقت میں ادائیگی کرنا لازم تھا، اگر وہ ادائیگی نہیں کر رہا تو اس کو ادائیگی پر مجبور کیا جا سکتا ہے، لیکن اس کی رضامندی کے بغیر بیع کو ختم نہیں کیا جا سکتا، البتہ اگر وہ قیمت ادائیگی سے عاجز آ جائے تو بیع فسخ کی جا سکتی ہے ۔
*الدر المختار و رد المحتار:(4/ 571، ط: دار الفکر)*
’’ (فإن اشترى) شخص شيئا (على أنه) أي المشتري (إن لم ينقد ثمنه إلى ثلاثة أيام فلا بيع صح) استحسانا خلافا لزفر، فلو لم ينقد في الثلاث فسد فنفذ عتقه بعدها لو في يده فليحفظ. (و) إن اشترى كذلك (إلى أربعة) أيام (لا) يصح خلافا لمحمد. (فإن نقد في الثلاثة جاز) اتفاقا؛ لأن خيار النقد ملحق بخيار الشرط، فلو ترك التفريع لكان أولى۔
مطلب خيار النقد (قوله: على أنه أي المشتري إلخ) وكذا لو نقد المشتري الثمن على أن البائع إن رد الثمن إلى ثلاثة فلا بيع بينهما صح أيضا، والخيار في مسألة المتن للمشتري؛ لأنه المتمكن من إمضاء البيع وعدمه، وفي الثانية للبائع؛ حتى لو أعتقه صح ولو أعتقه المشتري لا يصح نهر. [تنبيه] ذكر في البحر هنا بيع الوفاء تبعا للخانية قائلا؛ لأنه من أفراد مسألة خيار النقد أيضا، وذكر فيه ثمانية أقوال وذكره الشارح آخر البيوع قبيل كتاب الكفالة، وسيأتي الكلام عليه هناك إن شاء الله - تعالى -. (قوله: فلو لم ينقد في الثلاث فسد) هذا لو بقي المبيع على حاله. قال: في النهر: ثم لو باعه المشتري ولم ينقد الثمن في الثلاث جاز البيع وكان عليه الثمن، وكذا لو قتلها في الثلاث أو مات أو قتلها أجنبي خطأ وغرم القيمة؛ ولو وطئها وهي بكر أو ثيب أو جنى عليها أو حدث بها عيب لا بفعل أحد ثم مضت الأيام ولم ينقد خير البائع، إن شاء أخذها مع النقصان ولا شيء له من الثمن، وإن شاء تركها وأخذ الثمن كذا في الخانية. اهـ.
*فتح القدیر :(257/6،ط : دارالفکر)*
"قوله وإذا حصل الإيجاب والقبول لزم البيع ولا خيار لواحد منهما إلا من عيب أو عدم رؤية."
*الموسوعة الفقہیة الکویتیة:(324/5،ط:دارالسلاسل)*
"وهي في اصطلاح الفقهاء: رفع العقد، وإلغاء حكمه وآثاره بتراضي الطرفين."