ایصال ثواب

تعزیت کا مسون طریقہ اور تعزیت کے لیے ہاتھ اٹھانے کا حکم

فتوی نمبر :
240
| تاریخ :
0000-00-00
عبادات / جنائز / ایصال ثواب

تعزیت کا مسون طریقہ اور تعزیت کے لیے ہاتھ اٹھانے کا حکم

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
مفتی صاحب ہمارے گاؤں میں جب کوئی مرتا ہے تو گھر والے تین دن تک ایک جگہ تعزیت کے لیے بیٹھ جاتے ہیں اور جب کوئی تعزیت کے لیے آتا ہے تو باربار ہاتھ اٹھا کر دعا کرتے ہیں کیا ایسا کرنا شرعاً جائز ہے یا نہیں ؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

واضح رہے کہ تعزیت کا مطلب ’’ تسلی دینا اور صبر کی تلقین کرنا‘‘ ہے، اس کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ میّت کے سامنے ایسے کلمات کہے جائیں جو ان کے لیے تسلی کا باعث ہوں، ان کے سامنے صبر کے فضائل اور اجر وثواب بیان کیے جائیں اور اسی کے ساتھ ساتھ میت کے لیے مغفرت اور درجات کی بلندی کے لیے دعا کی جائے، حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا : ’’جس نے کسی مصیبت زدہ مسلمان بھائی کی تعزیت کی اس کو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن بزرگی اور کرامت کا لباس پہنائیں گے۔‘‘
تعزیت کے لیے کوئی خاص الفاظ متعین نہیں ،البتہ بعض احادیث میں یہ الفاظ آئے ہیں :’’إِنَّ لِلہِ مَا أَخَذَ وَلَه مَا أَعْطٰى، وَكُلُّ شَيْءٍ عِنْدَه بِأَجَلٍ مُّسَمًّى ‘‘۔
تعزیت کا وقت میت کے انتقال سے لے کر تین دن تک ہوتا ہے، اس کے بعد تعزیت کرنا مکروہ ہے ۔
تعزیت کے لیے ہر آنے والے کے ساتھ مروجہ طریقے پر ہاتھ اٹھانا اور اسے لازم سمجھنا بدعت ہے،البتہ لازم سمجھے بغیر مغفرت کی کوئی بھی دعا کی جائے یا کبھی ہاتھ اٹھا کر دعا کرلی تو کوئی حرج نہیں۔

حوالہ جات

صحيح البخاري: (2/ 79،رقم الحديث:1284،ط:دارطوق النجاة)
حدثنا عبدان ومحمد قالا: أخبرنا عبد الله: أخبرنا عاصم بن سليمان، عن أبي عثمان قال: حدثني أسامة بن زيد رضي الله عنهما قال: «أرسلت ابنة النبي صلى الله عليه وسلم إليه: إن ابنا لي قبض فأتنا، فأرسل يقرئ السلام، ويقول: إن لله ما أخذ وله ما أعطى، وكل عنده بأجل مسمى، ‌فلتصبر ‌ولتحتسب. فأرسلت إليه تقسم عليه ليأتينها، فقام ومعه سعد بن عبادة، ومعاذ بن جبل، وأبي بن كعب، وزيد بن ثابت، ورجال، فرفع إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم الصبي ونفسه تتقعقع، قال: حسبته أنه قال: كأنها شن، ففاضت عيناه، فقال سعد: يا رسول الله، ما هذا؟ فقال: هذه رحمة جعلها الله في قلوب عباده، وإنما يرحم الله من عباده الرحماء.

سنن الترمذي:(2/ 373،رقم الحديث:1076،ط: دار الغرب الإسلامي)
حدثنا محمد بن حاتم المؤدب، قال: حدثنا يونس بن محمد قال: حدثتنا أم الأسود ، عن منية بنت عبيد بن أبي برزة ، عن جدها أبي برزة ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من ‌عزى» ‌ثكلى كسي بردا في الجنة.

الهندية: (1/ 167،ط:دارالفکر)
التعزية لصاحب المصيبة حسن، كذا في الظهيرية، وروى الحسن بن زياد إذا عزى أهل الميت مرة فلا ينبغي أن يعزيه مرة أخرى، كذا في المضمرات.ووقتها من حين يموت إلى ثلاثة أيام ويكره بعدها۔۔۔ويستحب أن يقال لصاحب التعزية: غفر الله تعالى لميتك وتجاوز عنه وتغمده برحمته ورزقك الصبر على مصيبته وآجرك على موته، كذا في المضمرات ناقلا عن الحجة.وأحسن ذلك تعزية رسول الله صلى الله عليه وسلم «إن لله ما أخذ وله ما أعطى وكل شيء عنده بأجل مسمى۔۔۔۔ولا بأس لأهل المصيبة أن يجلسوا في البيت أو في مسجد ثلاثة أيام والناس يأتونهم ويعزونهم ويكره الجلوس على باب الدار وما يصنع في بلاد العجم من فرش البسط والقيام على قوارع الطرق من أقبح القبائح، كذا في الظهيرية، وفي خزانة الفتاوى والجلوس للمصيبة ثلاثة أيام رخصة وتركه أحسن، كذا في معراج الدراية.

واللہ تعالی اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ دارالعلوم حنفیہ (نعمان بن ثابت)

فتوی نمبر 240کی تصدیق کریں
21
Related Fatawa متعلقه فتاوی
  • تعزیت کا مسون طریقہ اور تعزیت کے لیے ہاتھ اٹھانے کا حکم

    یونیکوڈ   ایصال ثواب 0
...
Related Topics متعلقه موضوعات