مخاصمات

کسی کنویں کے قریب اپنی مملوکہ زمین میں بورنگ کروانا

فتوی نمبر :
174
| تاریخ :
0000-00-00
معاملات / مخاصمات / مخاصمات

کسی کنویں کے قریب اپنی مملوکہ زمین میں بورنگ کروانا

السلام علیکم کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ ایک کنواں ہے جس میں اچھا پانی آتا ہےاور بالکل اس کنویں کے سیدھ میں تقریباً 250, 300 فٹ اوپر زمین میں کسی نے بوریینگ کھودی ہے اور جس نے بوریینگ کھودی ہے یہ زمین بھی اسی بندے کی ہےاب نیچے کنویں میں پانی کی قلت ہوگئی اب نیچے کنویں والے لوگ کہہ رہے ہیں کہ کنویں میں پانی کی جو قلت ہے وہ اس بوریینگ کی وجہ سے ہے اب اس صورت میں شرعی کیا حکم ہے

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

واضح رہے کہ اپنی ملکیت میں کوئی شخص جس طرح چاہے تصرف کرسکتا ہے،لہذا پوچھی گئی صورت میں اپنی مملوکہ زمین میں بورنگ کروانا جائز ہے،البتہ اخلاق کا تقاضا یہ ہے کہ یہ شخص اپنی زمین میں ایسی جگہ بورنگ کروائے، جس سے پہلے والے کنویں کا پانی متاثر نہ ہو، نیز یہ بھی واضح رہے کہ حریم(یعنی جس شخص نے پہلے کنواں کھدوایا ہو، بورنگ کروائی ہو یا ٹیوب ویل بنایاہو، اسے شرعاً حق حاصل ہےکہ وہ کسی دوسرے شخص کو چالیس گز کے اندر اندر دوسرا کنواں کھدوانے، بورنگ کروانے، یا ٹیوب ویل بنانے سے منع کرے)ارضِ موات کے بارے میں ہے، اپنی مملوکہ زمین میں کنواں کھودنا بہر صورت جائز ہے، خواہ اس سے دوسرے کے کنویں کا نقصان ہی کیوں نہ ہو۔

حوالہ جات

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع: (6/ 264،ط:دارالکتب العلمیۃ)
‌للمالك ‌أن ‌يتصرف في ملكه أي تصرف شاء سواء كان تصرفا يتعدى ضرره إلى غيره أو لا يتعدى فله أن يبني في ملكه مرحاضا أو حماما أو رحى أو تنورا وله أن يقعد في بنائه حدادا أو قصارا وله أن يحفر في ملكه بئرا أو بالوعة أو ديماسا وإن كان يهن من ذلك البناء ويتأذى به جاره.
وليس لجاره أن يمنعه حتى لو طلب جاره تحويل ذلك لم يجبر عليه؛ لأن الملك مطلق للتصرف في الأصل والمنع منه لعارض تعلق حق الغير فإذا لم يوجد التعلق لا يمنع إلا أن الامتناع عما يؤذي الجار ديانة واجب للحديث قال عليه الصلاة والسلام «المؤمن من أمن جاره بوائقه»

الهندیة:(5/387،ط:دارالفکر)
وروي عن محمد - رحمه الله تعالى - في النوادر حريم الناضح ستون ذراعا إلا أن يكون الحبل سبعين ذراعا فحينئذ يكون له الحريم بقدر الحبل حتى يتهيأ له الانتفاع بالبئر كذا في محيط السرخسي. وإذا احتفر الرجل بئرا في مفازة بإذن الإمام فجاء رجل آخر واحتفر في حريمها بئرا كان للأول أن يسد ما احتفره الثاني وكذلك لو بنى أو زرع أو أحدث فيه شيئا للأول أن يمنعه من ذلك لملكه ذلك الموضع وما عطب في بئر الأول فلا ضمان عليه فيه لأنه غير متعد في حفره وما عطب في بئر الثاني فهو مضمون على الثاني لأنه متعد في تسببه ولو أن الثاني حفر بئرا بأمر الإمام في غير حريم الأول وهي قريبة.

واللہ تعالی اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ دارالعلوم حنفیہ (نعمان بن ثابت)

فتوی نمبر 174کی تصدیق کریں
22
Related Fatawa متعلقه فتاوی
  • وقف کی گئی زمین کو بدلنا

    یونیکوڈ   مخاصمات 0
  • کسی کنویں کے قریب اپنی مملوکہ زمین میں بورنگ کروانا

    یونیکوڈ   مخاصمات 0
...
Related Topics متعلقه موضوعات