السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
مفتی صاحب! تراویح میں ختم قرآن کے موقع پر آخری دو رکعتوں میں سے پہلی رکعت میں سورہ ناس اور دوسری میں سورہ بقرہ کا ابتدائی حصہ تلاوت کرنا کیسا ہے؟ ہمارے ایک جاننے والے مولانا فرما رہے ہیں کہ یہ عمل درست نہیں، پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل دوسرا قرآن شروع کرنا ہوتا تھا، نہ کہ دوسرے قرآن کی چند آیات، جب معلوم ہے دوبارہ نہیں پڑھنا تو یہ عمل پیغمبر کی اتباع نہیں، بلکہ دھوکہ یا جو کہہ لیں،
دوسری بات وہ کہہ رہے ہیں کہ یہ تو جان بوجھ کر ترتیب قرآن کی مخالفت کرنا ہے جو کہ بذات خود ایک مکروہ عمل ہے وغیرہ اس پر شافی اور کافی جواب مرحمت فرمائیں۔ جزاک اللہ خیرا کثیر
تراویح میں بیسویں رکعت میں سورہ بقرہ کی ابتدائی آیات مفلحون تک پڑھنا مستحب ہے ۔حضرت عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کون سا عمل اللہ کو زیادہ پسند ہے؟ آپ نے فرمایا: «الحال» اور «المرتحل» (اترنے اور کوچ کرنے والا) عمل، اس نے کہا: «الحال» اور «المرتحل» (اترنے اور کوچ کرنے والا) سے کیا مراد ہے؟ آپ نے فرمایا: ”جو قرآن شروع سے لے کر آخر تک پڑھتا ہے اور جب بھی وہ رکے تو پھر سے شروع کردے۔(سنن ترمذی،حدیث نمبر:2948)
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب قل أعوذ برب الناس (سورۃ الناس) پڑھ لیتے تو سورۃ الفاتحہ سے (یعنی ’’الحمد‘‘) آغاز فرماتے، پھر سورۃ البقرۃ پڑھتے یہاں تک کہ ’’أُوْلَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ‘‘(البقرۃ: 5) تک پہنچتے، پھر دعائے ختم قرآن پڑھتے اور اس کے بعد کھڑے ہو جاتے۔( جامع البيان في القراءات السبع لأبي عمرو الداني،ص:4/1747)
اسی حدیث کی بنا پر علمائے کرام نے لکھا ہے کہ تراویح میں قرآنِ مجید ختم کے بعد فوراً دوسرا قرآن شروع کردینا چاہیے، تاکہ یہ سلسلہ چلتا رہے اور یہاں رک نہ جائے، البتہ واضح رہے کہ یہ عمل مستحب ہے،لہذا اگر کوئی اس طرح نہ کرے، بلکہ سورۂ ناس تک اکتفا کرے تو بھی قرآنِ کریم کی تکمیل ہوجائے گی۔
*سنن الترمذي:(رقم الحدیث 2948،ط:دارالغرب الاسلامی)*
حدثنا نصر بن علي الجهضمي ، قال: حدثنا الهيثم بن الربيع ، قال: حدثنا صالح المري ، عن قتادة ، عن زرارة بن أوفى ،عن ابن عباس، قال: قال رجل: يا رسول الله أيّ العمل أحبّ إلى الله؟ قال: الحال المرتحل. قال: وما الحال المرتحل؟ قال: الذي يضرب من أول القرآن إلى آخره كلما حل ارتحل.
*جامع البيان في القراءات السبع لأبي عمرو الداني:( 4/ 1746،ط:جامعة الشارقة)*
وأما الوارد من الآثار بقراءة فاتحة الكتاب وخمس آيات من أول سورة البقرة مستقبلا بالختمة، فقرأت على عبد العزيز بن محمد عن عبد الواحد بن عمر قال: نا العباس بن أحمد البزّي قال: نا عبد الوهاب بن فليح المكّي قال: نا عبد الملك بن عبد الله بن شعوة عن خاله وهب بن زمعة بن صالح «2» عن عبد الله بن كثير عن درباس مولى ابن عباس عن عبد الله بن عباس عن أبيّ بن كعب عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه كان إذا قرأ قل أعوذ بربّ الناس افتتح من الحمد ثم قرأ من البقرة إلى أولئك هم المفلحون [البقرة: 6] ثم دعا بدعاء الختمة ثم قام.
*الإتقان في علوم القرآن:(1/ 384،ط:الهيئة المصرية العامة)*
يسن إذا فرغ من الختمة أن يشرع في أخرى عقب الختم لحديث الترمذي وغيره: "أحب الأعمال إلى الله الحال المرتحل الذي يضرب من أول القرآن إلى آخره كلما حل ارتحل ".وأخرج الدارمي بسند حسن عن ابن عباس عن أبي بن كعب: أن النبي صلى الله عليه وسلم كان إذا قرأ {قل أعوذ برب الناس} افتتح من الحمد ثم قرأ من البقرة إلى: {أولئك هم المفلحون} ، ثم دعا بدعاء الختمة ثم قام.
*الشامیة:(1 /547،ط:دارالفکر)*
(قوله إلا إذا ختم إلخ) قال في شرح المنية: وفي الولوالجية: من يختم القرآن في الصلاة إذا فرغ من المعوذتين في الركعة الأولى يركع ثم يقرأ في الثانية بالفاتحة وشيء من سورة البقرة، لأن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:خير الناس الحال المرتحل أي الخاتم المفتتح اهـ.