السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ!
سوال : کسی مسلمان کے انتقال کے بعد میت کے ایصال ثواب کے لیے وقت یا دن کا تعین کیئے بغیر یعنی انتقال کے بعد دوسرے, تیسرے, چوتھے, پانچویں یا چھٹے کسی بھی دن اجتماعی قرآن خوانی (جاننے والے متعلقین احباب کو جمع کرکے اکھٹے بیٹھ کر) قرآن خوانی کرنا کیسا ہے ؟
واضح رہے کہ قرآنِ مجید کی تلاوت کرنا ایک عظیم عبادت اور خیر و برکت کا ذریعہ ہے۔ نبی کریم صلی علیہ وسلم نے اس کی تلاوت پر بے شمار فضائل بیان فرمائے ہیں،البتہ اجتماعی طور پر قرآن خوانی بھی شریعت کے دائرے میں رہتے ہوئے جائز ہے، بشرطیکہ چند شرائط کا لحاظ رکھا جائے:
(1) اجتماعی قرآن خوانی کے لیے کوئی خاص شکل یا طریقہ لازم نہ سمجھا جائے ۔
(2) مخصوص دن یا وقت کی تعیین نہ ہو: مثلاً سوئم، چہلم اس سے اجتناب ضروری ہے۔
(3) قرآن کی تلاوت صحیح تلفظ اوردرست انداز میں کی جائے۔
(4) قرآن خوانی کسی معاوضے(کھانا ،شیرینی یا رقم وغیرہ) کے لالچ پر نہ کی جائے۔ فقہائے کرام نے صراحت کی ہے کہ اجرت لے کر پڑھے گئے قرآن کا قاری کو ثواب حاصل نہیں ہوتا ،چہ جائیکہ میت کوحاصل ہو ۔
(5) قرآن خوانی میں شرکت کرنے والوں کی نیت خالصتاً رضائے الٰہی کی ہونی چاہیے، محض شرم، دباؤ، یا دکھاوے کی وجہ سے شرکت نہ کی جائے اور جو افراد شریک نہ ہوں، ان پر نکیر بھی نہ کی جائے۔
اگر ان شرائط کا لحاظ نہ کیا جائے تو بدعت ہے۔
الشامية:(6/ 56،ط:دارالفكر)*
إن القرآن بالأجرة لا يستحق الثواب لا للميت ولا للقارئ. وقال العيني في شرح الهداية: ويمنع القارئ للدنيا، والآخذ والمعطي آثمان. فالحاصل أن ما شاع في زماننا من قراءة الأجزاء بالأجرة لا يجوز؛ لأن فيه الأمر بالقراءة وإعطاء الثواب للآمر والقراءة لأجل المال؛ فإذا لم يكن للقارئ ثواب لعدم النية الصحيحة فأين يصل الثواب إلى المستأجر ولولا الأجرة ما قرأ أحد لأحد في هذا الزمان بل جعلوا القرآن العظيم مكسبا ووسيلة إلى جمع الدنيا.
*الفتاوی البزازیة: (38/1)*
ویکرہ اتخاذ الضیافۃ ثلاثۃ ایام واکلھا لانہ مشروعۃ للسرور مات فاجلس وارثہ من یقرا القرآن لاباس بہ اخذ بعض المشایخ ولا باس بزیارتھا بشرط ان یطاھا وکرہ الصاق اللوح والکتابۃعلیھا ولا یبنی علیہ بیت ولا یجصص ولا یطین بالالون ویکرہ اتخاذ الطعام فی الیوم الاول والثالث وبعد الاسبوع والاعیاد ونقل الطعام الی القبر فی المواسم واتخاذ الدعوۃ بقراءۃ القرآن وجمع الصلحاء والقراء للختم او لقراءۃ سورۃا لانعام او الاخلاص فالحاصل ان اتخاذ الطعام عند القرآن لاجل الاکل یکرہ۔
*الاعتصام للشاطبي: (53/1، ط: دار ابن عفان)*
ومنها: التزام العبادات المعينة في أوقات معينة لم يوجد لها ذلك التعيين في الشريعة، كالتزام صيام يوم النصف من شعبان وقيام ليلته.
*أيضا:(1/ 386)*
إذا ثبت هذا؛ فالدخول في عمل على نية الالتزام له، إذا ثبت هذا، فالدخول في عمل على نية الالتزام له إن كان في المعتاد، بحيث إذا داوم عليه؛ أورث مللا، ينبغي أن يعتقد أن هذا الالتزام مكروه ابتداء، إذ هو مؤد إلى أمور جميعها منهي عنه:أحدها: أن الله ورسوله أهدى في هذا الدين التسهيل والتيسير، وهذا الملتزم يشبه من لم يقبل هديته، وذلك يضاهي ردها على مهديها، وهو غير لائق بالمملوك مع سيده، فكيف يليق بالعبد مع ربه؟.
*أيضا:(1/ 392)*
الخوف من الدخول تحت الغلو في الدين؛ فإن الغلو هو المبالغة في الأمر، ومجاوزة الحد فيه إلى حيز الإسراف.
*أيضا: (1/ 485)*
[فصل من البدع الإضافية إخراج العبادة عن حدها الشرعي]
ومن البدع الإضافية التي تقرب من الحقيقية: أن يكون أصل العبادةمشروعا؛ إلا أنها تخرج عن أصل شرعيتها بغير دليل توهما أنها باقية على أصلها تحت مقتضى الدليل، وذلك بأن يقيد إطلاقها بالرأي، أو يطلق تقييدها، وبالجملة؛ فتخرج عن حدها الذي حد لها-----ومن ذلك قراءة القرآن بهيئة الاجتماع عشية عرفة في المسجد للدعاء تشبها بأهل عرفة