ایک شخص نے دوسرے سے ایک ماہ کے لیے کچھ رقم لی اور وعدہ کیا کہ مقررہ وقت پر اصل رقم اور کچھ منافع بھی دے گا۔ لیکن کئی ماہ گزر جانے کے باوجود اس نے رقم واپس نہیں کی، یہ عذر پیش کرتا ہے کہ کاروبار بند ہوگیا ہے اور جیسے ہی کاروبار چلے گا وہ رقم واپس کر دے گا۔ اسی دوران وہ شخص عید کے بعد اپنے اہل و عیال کے ساتھ عمرہ پر جانے کا ارادہ رکھتا ہے، جس پر اس کے بقول 30 سے 35 لاکھ روپے خرچ آئیں گے پوچھنا یہ ہے کہ جب اس پر قرض باقی ہے اور وہ قرض خواہ کو رقم واپس کرنے کی بجائے لاکھوں روپے عمرہ پر خرچ کرنے جا رہا ہے تو کیا اس کا یہ عمرہ شرعاً درست اور مقبول ہوگا یا نہیں؟
اگر کسی مقروض کو قرض خواہ کی طرف سے مہلت دے دی گئی ہو، یا مقروض کے پاس اتنی مالی وسعت ہو کہ وہ قرض کی ادائیگی کے ساتھ عمرہ یا حج بھی کر سکتا ہو تو ایسے شخص کے لیے عمرہ یا حج پر جانا شرعاً درست ہے۔
لیکن اگر مقروض کے پاس قرض ادا کرنے کی استطاعت موجود ہو اور قرض خواہ بھی مطالبہ کر رہا ہو، پھر بھی وہ قرض کی ادائیگی کو مؤخر کر کے عمرہ یا حج پر چلا جائے تو یہ شرعاً پسندیدہ عمل نہیں ہے، شریعتِ مطہرہ میں حقوق العباد کو حقوق اللہ پر مقدم قرار دیا گیا ہے، اس لیے ایسے شخص کو چاہیے کہ پہلے قرض ادا کرے، پھر اگر مالی وسعت باقی ہو تو عمرے کی ادائیگی کرے۔
تاہم قرض ادا کیے بغیر عمرہ کرنے سے عمرہ ادا ہو جائے گا۔
*صحيح البخاري:(118/3،رقم الحديث:2400،ط:دار طوق النجاة)*
حدثنا مسدد: حدثنا عبد الأعلى، عن معمر، عن همام بن منبه، أخي وهب بن منبه: أنه سمع أبا هريرة رضي الله عنه يقول: قال رسول الله ﷺ: «مطل الغني ظلم.»
*مرقاةالمفاتيح:(1956/5،ط:دار الفكر)*
أي عن أبي هريرة (أن رسول الله ﷺ قال: مطل الغني): أي: تأخيره أداء الدين من وقت إلى وقت (ظلم): فإن المطل منع أداء ما استحق أداؤه وهو حرام من المتمكن، ولو كان غنيا ولكنه ليس متمكنا جاز له التأخير إلى الإمكان ذكره النووي.