السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک شخص نے عمرہ کا احرام باندھا طواف کے بعد سعی کے دوران سخت بیمار ہو گیا ہسپتال داخل ہوا تین چکر یاد ہیں چوتھے میں شک ہے پھر احرام کھول دیا لیکن حلق نہیں کرایا پھر پاکستان آگیا کیا اس شخص پر دم واجب ہے کہ نہیں ؟
واضح رہے کہ سعی کے سات چکر لگانا واجب ہے،بغیر عذر کے چھوڑنے سے دم لازم ہوتا ہے، ہاں اگر کسی عذر کی وجہ سے کچھ چکر رہ گئے تو کوئی چیز لازم نہیں ہو گی۔
اسی طرح احرام کی پابندیوں سے نکلنے کے لیے حلق یا قصر کرنا واجب ہے، بغیر حلق یا قصر کے صرف احرام کی چادریں کھولنے سے احرام کی پابندیاں ختم نہیں ہوتیں،لہذا پوچھی گئی صورت میں مذکور شخص اگر واقعی اتنا بیمار تھا کہ سعی کرنے پر قادر نہیں تھا تو سعی چھوڑنے کی وجہ سے اس پر دم لازم نہیں، البتہ بغیر حلق و قصر کے احرام کھول کر وطن واپس آنے اور حلق سے پہلے ممنوعاتِ احرام (مثلاًسلے ہوئے کپڑے پہننا، خوشبو لگانا وغیرہ) کا ارتکاب کرنے کی وجہ سے اس پر ایک دم لازم ہوگا۔
اگر اس شخص نے حلق یا قصر نہیں کیا تو ابھی تک حالت احرام میں ہے، جس سے نکلنے کی صورت یہ ہے کہ وہ فوراً حدودِ حرم میں جا کر چوتھائی سر کے برابر بال کاٹ لے، یہ بال بھی حدودِ حرم میں ہی کاٹنا ضروری ہے، حدودِ حرم سے باہر کاٹنا جائز نہیں،البتہ اگر اس كے اندر حرم شریف جانے کی استطاعت نہیں ہے تو اس صورت میں پاکستان میں بال کاٹ دے اور پھر مزید ایک دم ادا کرنا ہوگا۔
نیز یہ دم حدودِ حرم میں ادا کرنا لازم ہے، خواہ خود کرے یا کسی کو اپنا وکیل بنادے۔
بدائع الصنائع:(134/2،ط:دارالکتب العلمية)
وإذا كان، واجبا فإن تركه لعذر فلا شيء عليه، وإن تركه لغير عذر لزمه دم.
أيضاً:(140/2)
"أن الحلق أو التقصير، واجب لما ذكرنا فلا يقع التحلل إلا بأحدهما و لم يوجد فكان إحرامه باقيا فإذا غسل رأسه بالخطمي فقد أزال التفث في حال قيام الإحرام فيلزمه الدم، والله أعلم".
فتح القدير:(59/3،ط:دارالفكر)
وإذا كان السعي واجبا، فإن تركه لعذر فلا شيء عليه، وإن تركه لغير عذر لزم دم؛ لأن هذا حكم ترك الواجب في هذا الباب.
الشامية:(533/2،ط:دارالفکر)
"واعلم أن المحرم إذا نوى رفض الإحرام فجعل يصنع ما يصنعه الحلال من لبس الثياب والتطيب والحلق والجماع وقتل الصيد فإنه لا يخرج بذلك من الإحرام، وعليه أن يعود كما كان محرما، ويجب دم واحد لجميع ما ارتكب ولو كل المحظورات، وإنما يتعدد الجزاء بتعدد الجنايات إذا لم ينو الرفض، ثم نية الرفض إنما تعتبر ممن زعم أنه خرج منه بهذا القصد لجهله مسألة عدم الخروج، وأما من علم أنه لا يخرج منه بهذا القصد فإنها لا تعتبر منه.
غنية الناسك:(ص:175،ط: ادارة القرآن)
ويختص حلق الحاج بالزمان والمكان عند أبى حنيفة، وحلق المعتمر بالمكان، فالزمان أيام النحر الثلاثة، والمكان الحرم، والتخصيص للتضمين، لا للتحلييل، فلو حلق أو قصر فى غير ما توقت له به لزمه الدم ولكن يحصل به التحلل فى أى مكان وزمان أتى به بعد دخول وقته وأول وقت صحة الحلق فى الحج طلوع فجر يوم النحر، ووقت ………….. ولا آخر له فى حق التحلل، وأول وقت الصحة فى العمرة بعد اكثر طوافها، وأول حله بعد السعى لها. وأول وقت حله فى المحصر بعد ذبح الهدى فى الحرم.