ہم شادی شدہ ہیں اور ہمارا ایک بچہ بھی ہے مباشرت کے دوران میری بیوی ہمیشہ درد اور دقت کی شکایت کتی رہتی ہے ہم نے اپنی شادی کے چودہ ماہ بعد مباشرت کی تھی اب بیٹے کے ولادت کے بعد (شادی کے پانچ سال کے بعد ) ہم نے تقریبا ایک سال سےزیادہ مدت سے مباشرت نہیں کی ہے اس میں حمل کی مدت بھی شامل ہے اس لیے گذشتہ ایک سال سے میری بیوی اپنے ہاتھ سے مجھے مشت زنی کراتی ہے اور میں اپنے ہاتھ سے اس کی مدد کرتا ہوں
براہ کرم !
مجھے یہ بتائیں کہ اسلام میں یہ جائز ہے ؟ اور اگر نہیں تو بتائیں ہم کیا کریں ۔
اسلام نے انسان کو اپنی جنسی ضرورت پورا کرنے کے لیے شادی کی اجازت دی ہے اور اسے مسنون اوراولیٰ عمل قرار دیا ہے تاہم اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے زوجین (میاں بیوی ) کا صحت مند ہونا بھی لازمی ہے اگر میاں بیوی میں سے کوئی ایک بیمار یا معذور ہو تو اس صورت میں مشت زنی کرنے یا کرانے کی گنجائش ہے ۔
پوچھی گئی صورت میں اگر حقیقتا بیوی بیمار ہے اور شوہر کے ساتھ ہمبستری نہ کرنے کی وجہ شوہر کے گناہ میں مبتلاہونے کا خدشہ ہے تو ایسی صورت بھی بیوی کے ہاتھ سے مشت زنی کرانے کی اجازت ہے ۔
الشامية :(2/ 399، ط:دارالفكر)
الظاهر أنه غير قيد بل لو تعين الخلاص من الزنى به وجب؛ لأنه أخف وعبارة الفتح فإن غلبته الشهوة ففعل إرادة تسكينها به فالرجاء أن لا يعاقب اهـ زاد في معراج الدراية وعن أحمد والشافعي في القديم الترخص فيه وفي الجديد يحرم ويجوز أن يستمني بيد زوجته وخادمته اهـ وسيذكر الشارح في الحدود عن الجوهرة أنه يكره ولعل المراد به كراهة التنزيه فلا ينافي قول المعراج يجوز تأمل وفي السراج إن أراد بذلك تسكين الشهوة المفرطة الشاغلة للقلب وكان عزبا لا زوجة له ولا أمة أو كان إلا أنه لا يقدر على الوصول إليها لعذر قال أبو الليث أرجو أن لا وبال عليه وأما إذا فعله لاستجلاب الشهوة فهو آثم .
الفقه الإسلامي وأدلته:(3/ 1721، ط:دارالفكر)
الاستمناء (وهو إخراج المني بغير جماع، محرَّماً كأن أخرجه بيده، أو غير محرَّم كإخراجه بيد زوجته)، وخروج المني بلمس وقبلة ومضاجعة بلا حائل؛ لأنه إنزال بمباشرة.
الأشباه والنظائر:(ص73، ط: دار الكتب العلمية )
الأولى: الضرورات تبيح المحظورات .