سوال :السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ حج کے دوران منی عرفات میں نمازِ قصر ہے یا پوری
واضح رہے کہ مکہ مکرمہ شہر کی آبادی اب منی سے آگے نکل چکی ہے اور اب منیٰ بھی مکہ مکرمہ کی شہری حدود میں شامل ہوچکا ہے، لہٰذا مکہ مکرمہ میں مقیم افراد کیلئے منیٰ میں نماز قصر کے بجائے اتمام (پوری نماز پڑھنا)ضروری ہے، یہی حکم مزدلفہ کا بھی ہے، کیونکہ وہ بھی اب مکہ کی شہری حدود میں شامل یا اس کے بالکل قریب ہے،اسی طرح عرفات اگرچہ مکہ مکرمہ کی حدود سے باہر ہے، تاہم چونکہ وہاں کا سفر مکہ سے اتنا مختصر ہے کہ اس پر "سفر شرعی" کا اطلاق نہیں ہوتا، اس لیے مکہ میں مقیم افراد کے لیے وہاں بھی نماز قصر پڑھنے کی اجازت نہیں ہوگی، بلکہ اتمام (پوری نماز) ادا کرنا لازم ہوگا۔
نیز اس مسئلہ میں علمائے کرام کا اختلاف ہے،بعض قصر کے قائل ہیں،بعض اتمام کے،لہذاجن علمائے کرام کے فتوے پر اعتماد ہو، اس پر عمل کیا جاسکتا ہے، البتہ دونوں طرف کے علمائے کرام کی رائے قابل احترام ہے۔
عمدة القاري:(7/119،ط:دارالفکر)
وقال أكثر أهل العلم، منهم عطاء والزهري والثوري والكوفيون وأبو حنيفة وأصحابه والشافعي وأحمد وأبو ثور: لا يقصر الصلاة أهل مكة بمنى وعرفات لانتفاء مسافة القصر. وقال الطحاوي: وليس الحج موجبا للقصر لأن أهل منى وعرفات إذا كانوا حجاجا أتموا، وليس هو متعلقا بالموضع، وإنما هو متعلق بالسفر، وأهل مكة مقيمون هناك لا يقصرون، ولما كان المقيم لا يقصر لو خرج إلى منى كذلك الحاج.
الدرالمختار:(2/126،ط:دارالفکر)
(بموضعين مستقلين كمكة ومنى) فلو دخل الحاج مكة أيام العشر لم تصح نيته لأنه يخرج إلى منى وعرفة فصار كنية الإقامة في غير موضعها وبعد عوده من منى تصح كما لو نوى مبيته بأحدهما أو كان أحدهما تبعا للآخر بحيث تجب الجمعة على ساكنه للاتحاد حكما.