حرمت مصاهرت

حرمتِ مصاہرت کے ثبوت پر دلیل

فتوی نمبر :
189
| تاریخ :
0000-00-00
معاملات / احکام طلاق / حرمت مصاهرت

حرمتِ مصاہرت کے ثبوت پر دلیل

السلامُ علیکم!
مفتی صاحب، حرمت مصاہرت حدیث سے ثابت ہے کیا؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

واضح رہے کہ حرمت مصاہرت کا معنی ہے’’ سسرالی رشتہ کی بنا پر نکاح کی حرمت‘‘یعنی مرد عورت کےنکاح کرنے کی بناپرمردکےاصول(ماں باپ، دادا دادی،نانا نانی وغیرہ اوپر تک)وفروع( اولاد بیٹا بیٹی، پوتا پوتی ،نواسا نواسی، نیچے تک) عورت پر اور عورت کے اصول(ماں باپ، دادا دادی،نانا نانی وغیرہ اوپر تک)وفروع( اولاد بیٹا بیٹی، پوتا پوتی ،نواسا نواسی، نیچے تک) مرد پر حرام ہوجائیں گے اورجس طرح یہ حرمت نکاح کےذریعے سے ثابت ہوتی ہے ،اسی طرح سے زنا کرنے،مرد یا عورت کا کسی محرم یا نامحرم عورت یا مرد کو شہوت سے ہاتھ لگانےیااس کےاعضائے مخصوصہ کو شہوت کی نظر سے دیکھ لینے سے بھی ثابت ہوجاتی ہے۔
اور اس کی حرمت قرآن کریم سےاشارۃ النص اور احادیث وآثارِصحابہ وتابعین کرام رضی اللہ عنہم سے صراحتاًثابت ہے۔
ذیل میں اس حوالےسے چنداحادیث اور آثار ذکرکیے جاتے ہیں:
۱۔ابوہانی سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے ارشادفرمایا:’’جس نے کسی عورت کی شرمگاہ پر نظر ڈالی تو اس کےلیے نہ اس عورت کی ماں حلال ہوگی ،نہ اس کی بیٹی۔‘‘
۲۔ابو بکر بن عبدالرحمٰن بن اُمِّ الحَکَم سے روایت ہےکہ ایک آدمی نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں زمانۂ جاہلیت ایک عورت سے زنا کرچکا ہوں، کیا میں اب اس کی لڑکی سے نکاح کرسکتا ہوں؟ آپ ﷺ نے جواب دیا: میں اس کو جائز نہیں سمجھتا اور یہ بھی جائز نہیں ہے کہ تو ایسی عورت سے نکاح کرے، جس کی بیٹی کے جسم کے ان حصوں کو تو دیکھ چکا ہے جو حصے تو بیوی کے دیکھے گا۔

۳۔حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ان سے ایک شخص نے عرض کیا کہ اس نے اپنی بیوی کی ماں سے مباشرت کی ہے تو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا :تم پر تمہاری بیوی حرام ہوگئی، جبکہ اس شخص کے اپنی بیوی سے سات لڑکے تھے اور یہ سب لڑکے جوان ہوگئے تھے۔
۴۔ حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جو شخص اپنی ساس سے بدکاری کرےگاتو اس پر دونوں (یعنی بیوی اور ساس) حرام ہوجائیں گی۔
۵۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : اللہ تعالیٰ ایسے شخص کی طرف نہیں دیکھیں گے، جس نے کسی عورت کی شرمگاہ کو دیکھا پھر اس عورت کی بیٹی کی شرمگاہ کو بھی دیکھا۔
اس کے علاوہ دیگر اثار صحابہ وتابعین سےبھی اس کی تائید ہوتی ہے،تفصیل کے لیےموطامالك، مصنف عبدالرزاق،مصنف ابن ابی شیبہ اور اعلاء السنن کا مطالعہ کریں۔

حوالہ جات


مصنف ابن أبي شيبة:(9/99،رقم :16490،ط:دارالقبلة)
عن أبي هانئ قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : من نظر إلى فرج امرأة لم تحل له أمها ولا ابنتها.

مصنف عبد الرزاق: (7/ 202 ،رقم الحديث:12748،ط: المجلس العلمي)
عن أبي بكر بن عبد الرحمن بن أم الحكم، أنه قال: قال رجل: يا رسول الله، ‌إني ‌زنيت ‌بامرأة ‌في ‌الجاهلية وابنتها، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: " لا أرى ذلك، ولا يصلح ذلك: أن تنكح امرأة تطلع من ابنتها على ما اطلعت عليه منها.

تغليق التعليق لابن حجرالعسقلاني: (4/ ،ط: المكتب الإسلامي)
فقال الثوري في جامعه عن الأغر بن الصباح عن خليفة بن الحصين عن أبي نصر عن ابن عباس أن رجلا قال إنه أصاب أم امرأته فقال له ابن عباس ‌حرمت ‌عليك ‌امرأتك ‌وذلك ‌بعد ‌أن ‌ولدت ‌منه ‌سبعة ‌أولاد ‌كلهم ‌بلغ ‌مبالغ ‌الرجال.

مصنف عبد الرزاق:(7/ 200 )
عن عمران بن حصين في ‌الذي ‌يزني ‌بأم ‌امرأته، قد حرمتا عليه جميعا.

مصنف ابن أبي شيبة:(9/98،رقم :16489)
عن عبد الله قال : لا ينظر الله إلى رجل نظر إلى فرج امرأة وابنتها.

المبسوط للسرخسی: (4/ 207، ط: دارالمعرفة)
فنقول: كما ثبتت حرمة المصاهرة بالوطء تثبت بالمس والتقبيل عن شهوة عندنا سواء كان في الملك أو في غير الملك، وعند الشافعي - رحمه الله تعالى - لاتثبت الحرمة بالتقبيل والمس عن شهوة أصلاً في الملك أو في غير الملك حتى إنه لو قبل أمته، ثم أراد أن يتزوج ابنتها عنده يجوز. وكذلك لو تزوج امرأة وقبلها بشهوة، ثم ماتت عنده يجوز له أن يتزوج ابنتها بناءً على أصله أن حرمة المصاهرة تثبت بما يؤثر في إثبات النسب والعدة، وليس للمس والتقبيل عن شهوة تأثير في إثبات النسب والعدة، فكذلك في إثبات الحرمة وقاس بالنكاح الفاسد، فإن التقبيل والمس فيه لا يجعل كالدخول في إيجاب المهر والعدة، وكذلك في إيجاب الحل للزوج الأول، فكذا هنا، ولكنا نستدل بآثار الصحابة - رضي الله عنهم -، فقد روي عن ابن عمر - رضي الله عنه - أنه قال: إذا جامع الرجل المرأة أو قبلها بشهوة أو لمسها بشهوة أو نظر إلى فرجها بشهوة حرمت على أبيه وابنه وحرمت عليه أمها وابنتها. وعن مسروق - رحمه الله تعالى - قال: بيعوا جاريتي هذه أما إني لم أصب منها ما يحرمها على ولدي من المس والقبلة، ولأن المس والتقبيل سبب يتوصل به إلى الوطء، فإنه من دواعيه ومقدماته فيقام مقامه في إثبات الحرمة كما أن النكاح الذي هو سبب الوطء شرعاً يقام مقامه في إثبات الحرمة إلا فيما استثناه الشرع وهي الربيبة، وهذا لأن الحرمة تنبني الأحكام كما تقام شبهة البعضية بسبب الرضاع مقام حقيقة البعضية في إثبات الحرمة دون سائر الأحكام، ولو نظر إلى فرجها بشهوة تثبت به الحرمة عندنا استحساناً، وفي القياس لاتثبت، وهو قول ابن أبي ليلى والشافعي - رحمهما الله تعالى - لأن النظر كالتفكر؛ إذ هو غير متصل.

واللہ تعالی اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ دارالعلوم حنفیہ (نعمان بن ثابت)

فتوی نمبر 189کی تصدیق کریں
21
Related Fatawa متعلقه فتاوی
  • جس لڑکی کو شہوت سے ہاتھ لگایا اس کا اپنے بیٹے سے نکاح کرنا

    یونیکوڈ   حرمت مصاهرت 0
  • حرمتِ مصاہرت کے ثبوت پر دلیل

    یونیکوڈ   حرمت مصاهرت 0
...
Related Topics متعلقه موضوعات