السلام علیکم مفتی صاحب !
میری سہیلی ہیں ان کو شوہر نے ایک طلاق دی ہے اب وہ والدین کے گھر چلی گئی لیکن ان کی ساس چند دن کے بعد ان کو واپس لے کر اگئی شوہر نے ان سے بات چیت نہیں کی ہے تو کیا اس طرح رجوع ہو جاتا ہے؟
ایک طلاقِ رجعی کے بعد شوہر کو رجوع کا حق حاصل ہوتا ہے،
رجوع کا طریقہ یہ ہے کہ شوہر عدت (یعنی تین حیض) مکمل ہونے سے پہلے بیوی سے یہ کہے: "میں رجوع کرتا ہوں"، یا بیوی کو شہوت کے ساتھ چھولے، بوسہ دے، گلے لگائے، شرمگاہ کے اندرونی حصے کو دیکھ لے یا ہمبستری کر لے تو عورت دوبارہ شوہر کے نکاح میں آجائے گی، لیکن اگر عدت مکمل ہوجائے، یا طلاق بائن دی گئی ہو تو ایسی صورت میں (چاہے عدت کے دوران رجوع کیا ہو یا بعد میں) محض رجوع کافی نہیں ہوگا، بلکہ جانبین کی رضامندی سے دو گواہوں کی موجودگی میں نئے مہر کے ساتھ نیا نکاح کرنا ضروری ہوگا۔
لہٰذا پوچھی گئی صورت میں اگر رجوع کی شرائط پائی گئیں تو رجوع درست ہے، ورنہ رجوع معتبر نہیں ہوگا۔
البتہ دونوں صورتوں میں آئندہ شوہر کے پاس صرف دو طلاقوں کا اختیار باقی رہے گا۔
*احکام القران للجصاص:(471/1،ط:دارالکتب العلمیة)*
وفي قوله تعالى: ﴿فإمساك بمعروف﴾ دلالة على وقوع الرجعة بالجماع; لأن الإمساك عن النكاح إنما هو الجماع وتوابعه من اللمس والقبلة ونحوها. والدليل عليه أن من يحرم عليه جماعها تحريما مؤبدا لا يصح له عقد النكاح عليها، فدل ذلك على أن الإمساك على النكاح مختص بالجماع، فيكون بالجماع ممسكا لها، وكذلك اللمس والقبلة للشهوة والنظر إلى الفرج بشهوة; إذ كانت صحة عقد النكاح مختصة باستباحة هذه الأشياء، فمتى فعل شيئا من ذلك كان ممسكا لها بعموم قوله تعالی.
*البخاری:(رقم الحدیث5251،ط:دارطوق النجاۃ)*
حدثنا إسماعيل بن عبد الله قال: حدثني مالك، عن نافع، عن عبد الله بن عمر رضي الله عنهما، «أنه طلق امرأته وهي حائض على عهد رسول الله ﷺ، فسأل عمر بن الخطاب رسول الله ﷺ عن ذلك، فقال رسول الله ﷺ: مره فليراجعها، ثم ليمسكها حتى تطهر، ثم تحيض، ثم تطهر، ثم إن شاء أمسك بعد، وإن شاء طلق قبل أن يمس، فتلك العدة التي أمر الله أن تطلق لها النساء.
*الهندية:(1/ 470،ط:دارالفکر)*
وإذا طلق الرجل امرأته تطليقة رجعية أو تطليقتين فله أن يراجعها في عدتها رضيت بذلك أو لم ترض كذا في الهداية.
*وفیھا(572/1،ط:دارالفکر)*
إذا كان الطلاق بائنا دون الثلاث فله أن يتزوجها في العدة وبعد انقضائها
*درالمختار:(409/3،ط:دارالفکر)*
وينكح مبانته بما دون الثلاث في العدة وبعدها بالإجماع) ومنع غيره فيها لاشتباه النسب
*الھندیة:(471/1،ط:دارالفکر)*
وتنقطع الرجعة إن حكم بخروجها من الحيضة الثالثة إن كانت حرة ۔