پرورش و تربیت

والدین کا طلاق کے بعد پیدا ہونے والے بچہ کی پرورش سے انکار اور بچہ گود لینے والے کا ولدیت میں اپنا نام لکھوانے کا حکم

فتوی نمبر :
763
| تاریخ :
0000-00-00
معاشرت زندگی / اولاد کے مسائل و احکام / پرورش و تربیت

والدین کا طلاق کے بعد پیدا ہونے والے بچہ کی پرورش سے انکار اور بچہ گود لینے والے کا ولدیت میں اپنا نام لکھوانے کا حکم

ایک میاں بیوی کے درمیان طلاق ہو گئی۔ طلاق کے بعد بیوی کے ہاں ایک بچی پیدا ہوئی۔ اب ماں کہتی ہے کہ میں اس بچی کو پال نہیں سکتی، اور باپ بھی کہتا ہے کہ میں بھی اس بچی کی پرورش نہیں کر سکتا۔
ایسی صورت میں ایک تیسرا آدمی آتا ہے اور کہتا ہے کہ آپ یہ بچی مجھے دے دیں، میں اس کی پرورش کروں گا۔
ماں کہتی ہے کہ اسپتال کا خرچ دے دو اور بچی لے جاؤ۔ باپ بھی کہتا ہے کہ اسپتال کے اخراجات دے کر لے جاؤ، میں نہیں پال سکتا۔ اس کے ساتھ ساتھ جو حق مہر باقی تھا، وہ معاملہ بھی اسی تیسرے آدمی نے ادا کر دیا۔
اب تیسرے شخص کا سوال یہ ہے کہ اگر میں اس بچی کو پالوں گا تو کیا میں اس کی ولدیت میں اپنا نام باپ کی جگہ لکھوا سکتا ہوں؟ یعنی سرکاری کاغذات میں میں اپنے آپ کو اس بچی کا باپ ظاہر کر سکتا ہوں یا نہیں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اسلام میں اولاد کی پرورش اور دیکھ بھال والدین کی مشترکہ ذمہ داری ہے، چاہے ان کے درمیان طلاق ہی کیوں نہ ہو چکی ہو، طلاق کا مطلب یہ نہیں کہ اولاد کی ذمہ داری ختم ہو گئی، لہٰذا پہلے تو والدہ کو چاہیے کہ وہ نو سال تک اس بچی کی پرورش کرے اور والد اس کا خرچ دیتا رہے۔ اور نو سال کے بعد والد اس کی پرورش کرے، اگر والدہ پرورش نہیں کرتی تو پھر بچی کی پرورش کا حق نانی کو ہوتا ہے اور اگر نانی انتہائی ضعیف و کمزور ہو کہ وہ بچی کی پرورش نہ کر سکے، یا وہ بچی کی پرورش کے لیے تیار و آمادہ نہ ہو تو بچی کی پرورش کا حق دادی کو ہوتا ہے۔
اگر بچی کے والدین، نانی، دادی وغیرہ پرورش نہ کریں تو اگر کوئی اور آدمی بچی کو گود لیتا ہے اور اس کی پرورش کرتا ہے تو یہ جائز ہے، لیکن یہ ضروری ہے کہ بچی کی نسبت اس کے حقیقی والد کی طرف کی جائے، لہٰذا ولدیت میں اپنا نام لکھوانا جائز نہیں، البتہ سرپرست کے خانے میں اپنا نام لکھوایا جاسکتا ہے۔

حوالہ جات

القرآن الکریم:(الأحزاب:4:33)
"وَمَا جَعَلَ أَدْعِيَآءَكُمْ أَبْنَآءَكُمْ ذَٰلِكُمْ قَوْلُكُم بِأَفْوَٰهِكُمْ وَٱللَّهُ يَقُولُ ٱلْحَقَّ وَهُوَ يَهْدِي ٱلسَّبِيلَ ٱدْعُوهُمْ لِأٓبَآئِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِندَ ٱللَّهِۚ فَإِن لَّمْ تَعْلَمُوٓاْ ءَابَآءَهُمْ فَإِخْوَٰنُكُمْ فِي ٱلدِّينِ وَمَوَٰلِيكُمۡۚ وَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٞ فِيمَآ أَخْطَأۡتُم بِهِۦ وَلَٰكِن مَّا تَعَمَّدَتْ قُلُوبُكُمۡۚ وَكَانَ ٱللَّهُ غَفُورٗا رَّحِيمًا"

مشكاة المصابيح:(990/2، رقم الحديث:3314،ط:المكتب الاسلامي)
وعن سعد بن أبي وقاص وأبي بكرة قالا: قال رسول الله ﷺ: «من ادعى إلى غير أبيه وهو يعلم أنه غير أبيه فالجنة عليه حرام».

مرقاة المفاتيح:(2170/5،رقم الحديث :3314،ط: دارالفكر)
- (وعن سعد بن أبي وقاص وأبي بكرة قالا: قال رسول الله ﷺ: (من ادعى): بتشديد الدال أي انتسب (إلى غير أبيه وهو يعلم): أي: والحال أنه يعلم (أنه غير أبيه فالجنة عليه حرام): أي: إن اعتقد حله، أو قبل أن يعذب بقدر ذنبه، أو محمول على الزجر عنه ; لأنه يؤدي إلى فساد عريض، وفي بعض النسخ: فالجنة حرام عليه، وهو مخالف للأصول المعتمدة. (متفق عليه) .

الهندية:(541/1،ط: دارالفكر)
أحق الناس بحضانة الصغير حال قيام النكاح أو بعد الفرقة الأم إلا أن تكون مرتدة أو فاجرة غير مأمونة كذا في الكافي. سواء لحقت المرتدة بدار الحرب أم لا، فإن تابت فهي أحق به كذا في البحر الرائق

بدائع الصنائع :(41/4،ط: دارالكتب العلمية)
وأما بيان من له الحضانة فالحضانة تكون للنساء في وقت وتكون للرجال في وقت والأصل فيها النساء؛ لأنهن أشفق وأرفق وأهدى إلى تربية الصغار ثم تصرف إلى الرجال؛ لأنهم على الحماية والصيانة.

واللہ تعالی اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ دارالعلوم حنفیہ (نعمان بن ثابت)

فتوی نمبر 763کی تصدیق کریں
11
Related Fatawa متعلقه فتاوی
  • نومولود بچے کے کان میں اذان اور اقامت کا حکم

    یونیکوڈ   پرورش و تربیت 0
  • والدین کا طلاق کے بعد پیدا ہونے والے بچہ کی پرورش سے انکار اور بچہ گود لینے والے کا ولدیت میں اپنا نام لکھوانے کا حکم

    یونیکوڈ   پرورش و تربیت 0
  • میاں بیوی میں سے کوئی مسلمان ہو توبچے اس کے تابع ہوں گے

    یونیکوڈ   پرورش و تربیت 0
  • بچوں کے بال لمبے رکھنا جس سے لڑکیوں سے مشابہت ہو

    یونیکوڈ   پرورش و تربیت 0
...
Related Topics متعلقه موضوعات