کیافرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میں نے نذر مانی تھی کہ اگر میرا فلاں کام ہوگیا تو میں چالیس دن اللہ تعالیٰ کے راستے میں لگاوں گا حالات کے پیش نظرمیرے چالیس دن کے لیے جانا کافی مشکل ہے اب میں چاہتاہوں کہ ان چالیس دنوں میں میرا جو خرچہ ہوگااسے کسی مدرسے میں دے دوں تو کیا اس طرح میری مانی ہوئی نذر پوری ہوجائے گی یااس کی اور کوئی جائز صورت ہو تو ارشاد فرمائیں ۔
نذر کے صحیح ہونے کے لیے لازم ہے جس چیز کی نذرمانی جائے اس کے جنس میں سے کوئی چیز لازم ہو مثلا نماز روزہ حج وغیرہ ۔
اورپوچھی گئی صورت میں نذر لازم ہی نہیں ہوئی تواس کا پورا کرنا کہاں سے لازم ہوگا جب آپ کا وہ متعین کام ہوجائے گا تب نذر لازم ہوگی ۔
الهندية:(2/ 66، ط:دارالفكر)
قال: إن فعلت كذا فلله علي أن أضيف جماعة قرابتي فحنث لا يلزمه شيء.
الفقه الإسلامي وأدلته :(4/ 2555، ط:دارالفكر)
ثالثا:أن يكون قربة مقصودة: فلا يصح النذر بعيادة المرضى وتشييع الجنائز والوضوء وتكفين الميت والاغتسال ودخول المسجد ومس المصحف والأذان وبناء الرباطات والمساجد ونحوها؛ لأن هذه الأمور، وإن كانت قُرَباً لله إلا أنها ليست قرباً مقصودة لذاتها عادة.
البحر الرائق شرح كنز الدقائق :(2/ 316، ط:دارالكتاب الاسلامي)
واعلم بأنهم صرحوا بأن شرط لزوم النذر ثلاثة كون المنذور ليس بمعصية وكونه من جنسه واجب وكون الواجب مقصودا لنفسه .
النهر الفائق شرح كنز الدقائق:(2/ 38، ط:دارالكتب العلمية )
من شرائط صحته أن يكون من جنسه واجبا(و) أن لا يكون واجبًا بإيجابه تعالى .
جامع الفتاویٰ :7/191، ط:تالیفات اشرفیہ ملتان
روزے کے مسائل کاانسائیکلوپیڈیا :191،ط:بیت العمار کراچی