حرام طریقہ علاج و ادویات

انسانی اعضا کا ہبہ کرنا

فتوی نمبر :
515
| تاریخ :
0000-00-00
حظر و اباحت / حلال و حرام / حرام طریقہ علاج و ادویات

انسانی اعضا کا ہبہ کرنا

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بار ے میں کسی کو اپنا کوئی عضو ہبہ کرنا کیسا ہے ؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

انسانی اعضاء انسان کے پاس اللہ تعالیٰ کی امانت ہیں،انسان کو اپنے جسم کے استعمال کرنے کاحق ہے ،لیکن انسانی اعضاء چونکہ نہ مال ہیں ،اورنہ انسان اپنے اعضاء کا مالک ،لہذاانسان کا اپنے اعضاء میں سے کسی عضوکو اپنی زندگی بعداز مرگ عطیہ کرنے کی وصیت کرنا ناجائز اور حرام ہے۔مزیدتفصیلات کے لیے حضرت مولانامفتی محمدشفیع رحمہ اللہ کی کتاب''انسانی اعضاء کی پیوندکاری ''کامطالعہ فرمائیں۔

حوالہ جات

القرآن الکریم: (الإسراء17: 70)
وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ وَحَمَلْنَاهُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنَاهُمْ مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاهُمْ عَلَى كَثِيرٍ مِمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيلًا۔۔۔۔الخ

فتح الباري لابن حجر (11/ 539 ،ط :المکتبة السلفية)
ويؤخذ منه أن ‌جناية ‌الإنسان على نفسه كجنايته على غيره في الإثم لأن نفسه ليست ملكا له مطلقا، بل هي لله - تعالى - فلا يتصرف فيها الأيمان بما أذن له فيه.

الأشباه و النظائر: (76/1، ط: دار الکتب العلمیة)
تنبیہ آخر: (الضرر الاشد یزال بالاخف)
تقیید القاعدہ ایضا بما لو کان احدھما اعظم ضررا من الآخر، فان الاشد یزال باالاخف۔
ومنھا: جواز شق بطن المیتۃ؛لاخراج الولد اذا کانت ترجی حیاتہ۔ وقد امر بہ ابو حنیفۃ رحمہ اللہ فعاش الولد کما فی الملتقط۔

الهندية:(5/ 338،ط:دارالفکر)
مضطر لم يجد ميتة وخاف الهلاك فقال له رجل اقطع يدي وكلها أو قال ‌اقطع ‌مني ‌قطعة وكلها لا يسعه أن يفعل ذلك، ولا يصح أمره به كما لا يسع للمضطر أن يقطع قطعة من نفسه فيأكل، كذا في فتاوى قاضي خان.

واللہ تعالی اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ دارالعلوم حنفیہ (نعمان بن ثابت)

فتوی نمبر 515کی تصدیق کریں
12
Related Fatawa متعلقه فتاوی
  • انسانی اعضا کا ہبہ کرنا

    یونیکوڈ   حرام طریقہ علاج و ادویات 0
  • خون عطیہ کرنا

    یونیکوڈ   حرام طریقہ علاج و ادویات 0
...
Related Topics متعلقه موضوعات