اگر نکاح کے موقع پر ایک ہی گواہ موجود ہو اور دوسرا گواہ نکاح پڑھانے والا شخص بن جائے تو کیا اس صورت میں نکاح درست ہوگا؟
واضح رہےکہ شرعاً نکاح کے منعقد ہونے کے لیے یہ شرط ہے کہ عاقدین (دلہا اور دلہن) کے ایجاب و قبول پر کم از کم دو مسلمان مرد یا ایک مرد اور دو عورتیں بطور گواہ موجود ہوں، اس کے بغیر نکاح صحیح نہیں ہوتا،اگر نکاح خواں دلہا یا دلہن میں سے کسی کا وکیل نہ ہو تو وہ بطورِ گواہ شمار کیا جا سکتا ہے۔
*الشامية:(3/ 24،ط:دارالفكر)*
والأصل عندنا أن كل من ملك قبول النكاح بولاية نفسه انعقد بحضرته. (قوله: والأصل عندنا إلخ) عبارة النهر قال الإسبيجابي: والأصل أن كل من صلح أن يكون وليا فيه بولاية نفسه صلح أن يكون شاهدا فيه.
*الهندية:(1/ 267،ط:دارالفكر)*
والأصل في هذا الباب أن كل من يصلح أن يكون وليا في النكاح بولاية نفسه صلح أن يكون شاهدا، ومن لا فلا.
كذا في الخلاصة ويشترط العدد فلا ينعقد النكاح بشاهد واحد هكذا في البدائع ولا يشترط وصف الذكورة حتى ينعقد بحضور رجل وامرأتين، كذا في الهداية ولا ينعقد بشهادة المرأتين بغير رجل وكذا الخنثيين إذا لم يكن معهما رجل هكذا في فتاوى قاضي خان.