ایک ادمی فالج کی بیماری میں فوت ھوا۔۔تقریبادوسال بستر پررہے۔۔۔روزوں اورنماز کافدیہ ورثہ پرواجب ہےیانہیں۔۔تفصلی مدلل جواب عنایت فرماییں۔۔واجرکم علی اللہ تعالی۔۔
اگرمیت نے زندگی میں فدیہ کی وصیت کی تھی تو میت کے مال کے ایک تہائی (تیسرے حصے) میں سے ورثا پر فدیہ ادا کرنا لازم ہے،اگر وصیت نہیں کی تو واجب نہیں، البتہ اگر ادا کردیں تو یہ میت کے ساتھ بھلائی اور احسان کا معاملہ ہے۔
دلائل:
الشامیة:(464/2،ط: دارالفکر)
ولوماتوا بعدزوال العذر وجبت وفدی عنہ ولیہ کالفطرة بعد قدرتہ علیہ وفوتہ بوصیتہ من الثلث وان تبرع ولیہ بہ جاز.
و فيها أیضاً:(72/2،ط: دارالفکر)
(ولومات وعلیہ صلوات فائتة واوصی بالکفارة یعطی لکل صلوة نصف صاع من بر) ای یعطی عنہ ولیہ ای من لہ ولایة الترف فی مالہ بوصایة او وراثة فیلزمہ ذالک من الثلث ان اوصی والافلایلزم الولی ذالک لأنھاعبادة فلابد فیھامن الاختیار.
الھندیة:(208/1،ط: دارالفکر)
فان لم یصم حتی أدرکه الموت فعلیه ان یوصی بالفدیة کذا فی البدائع . . . . . . . . فان لم یوص وتبرع عنہ الوثة جاز ولا یلزمھم من غیر ایصاء.
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دار الافتاء جامعہ دارالعلوم حنفیہ،کراچی