السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
حضرات ایک مسئلہ درپیش ہے کہ موجودہ دور میں جو بوسکی کا کپڑا ہے اسکا استعمال مرد کیلئے کیسا ہے ؟کہا یہ جاتا ہے کہ اس میں ریشم کا استعمال ہوتا ہے اسوجہ سے اس کا استعمال مرد کیلئے درست نہیں ہے ؟اس بارے میں حقیقت حال سے آگاہی فراہم فرمایئے گا
شکریہ
واضح رہے کہ وہ کپڑا جس کا تانا (لمبائی کےرخ میں جانے والے دھاگہ) اوربانا (چوڑائی کے رخ میں جانے والے دھاگہ) دونوں ریشم کے ہوں، یا بانا خالص ریشم کا ہو، یا تانا بانا دونوں میں ریشم غالب ہو تو مرد کے لیے پہننا حرام ہے، موجودہ دور میں بوسکی کپڑا مختلف اقسام میں ملتا ہے،جو اکثر مصنوعی ریشم سے بنا ہوا ہوتا ہے، اس لیے جب تک تحقیق سے ثابت نہ ہو تو مردوں کے لیے اس کا پہننا جائز ہوگا، البتہ خریداری سے پہلے اچھی طرح معلوم کر لینا چاہیے۔
سنن ابی داؤد:(39/4روم الحدیث:4055،ط: المكتبة العصرية)*
حدثنا ابن نفيل، حدثنا زهير، حدثنا خصيف، عن عكرمة، عن ابن عباس، قال: إنما «نهى رسول الله ﷺ عن الثوب المصمت من الحرير، فأما العلم من الحرير، وسدى الثوب فلا بأس به».
*الدر المختار:(654/1،ط: دارالفكر)*
(و) يحل (لبس ما سداه إبريسم ولحمته غيره) ككتان وقطن وخز، لان الثوب إنما يصير ثوبا بالنسج والنسج باللحمة فكانت هي المعتبرة دون السدي.
*الشامية:(356/6،ط: دارالفكر)*
(و) يحل (لبس ما سداه إبريسم ولحمته غيره) ككتان وقطن وخز لأن الثوب إنما يصير ثوبا بالنسج والنسج باللحمة فكانت هي المعتبرة دون السدى. قلت: وفي الشرنبلالية عن المواهب يكره ما سداه ظاهر كالعتابي وقيل لا يكره ونحوه في الاختيار. قلت: ولا يخفى أن المرجح اعتبار اللحمة كما يعلم من العزمية بل في المجتبى أن أكثر المشايخ أفتوا بخلافه وفي شرح المجمع الخز صوف غنم البحر اهـ.
*الهندية:(330/5،ط: دارالفكر)*
يجب أن يعلم أن لبس الحرير، وهو ما كانت لحمته حريرا وسداه حريرا حرام على الرجال في جميع الأحوال عند أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - وقال أبو يوسف ومحمد - رحمهما الله تعالى - لا يكره في حالة الحرب ويكره في غير حالة الحرب، ومن العلماء من قال لا يكره ذلك في الأحوال كلها.