السلام علیکم!
حضرت ہمارے علاقے میں ایک پھل ہے، جس کو کالے املوک بولتے ہیں، وہ اکثر لوگ بیچ دیتے ہیں تو بعض حضرات وہ بیچ کر پھر پیسوں سے چالیسواں حصہ زکوۃ دیتے ہیں۔ اس بارے میں مفتیان کرام کیا فرماتے ہیں ؟
واضح رہے کہ زرعی پیداوار (جیسے اناج، پھل وغیرہ) میں عشر واجب ہوتا ہے، یعنی اگر زمین بارش یا قدرتی پانی سے سیراب ہو تو کل پیداوار کا دسواں حصہ دینا فرض ہے اور اگر زمین ٹیوب ویل یا خریدے ہوئے پانی سے سیراب ہو تو پیداور کا بیسواں حصہ دینا ضروری ہے۔
اصل حکم یہ ہے کہ پیداوار میں سے ہی عشر دیا جائے اور اخراجات نکالے بغیر کل پیداوار سے عشر دینا ضروری ہے، تاہم اگر اس کی مالیت کے برابر رقم دے دی جائے تو بھی عشر ادا ہو جاتا ہے،
لہٰذا پوچھی گئی صورت میں جو رقم دی ہے وہ عشر کی مکمل قیمت کے برابر ہے تو عشر ادا ہوگیا اور اگر اس سے کم ہے تو باقی رقم دینا ضروری ہوگا تاکہ عشر مکمل طور پر ادا ہو جائے۔
بدائع الصنائع:(63/2، ط:دارالکتب العلمیة)*
وأما صفة الواجب فالواجب جزء من الخارج لأنه عشر الخارج، أو نصف عشره وذلك جزؤه إلا أنه واجب من حيث إنه مال لا من حيث إنه جزء عندنا حتى يجوز أداء قيمته عندنا وعند الشافعي الواجب عين الجزء ولا يجوز غيره وهي مسألة دفع القيم وقد مرت فيما تقدم.
*رد المحتار:(326/2،ط : دار الفكر )*
(و) يجب (نصفه في مسقي غرب) أي دلو كبير (ودالية) أي دولاب لكثرة المؤنة وفي كتب الشافعية أو سقاه بماء اشتراه وقواعدنا لا تأباه ولو سقى سيحا وبآلة اعتبر الغالب ولو استويا فنصفه وقيل ثلاثة أرباعه (بلا رفع مؤن) أي كلف (الزرع) وبلا إخراج البذر.
*الھندیة:(187/1،ط: دار الفكر )*
ولو باع العنب أخذ العشر من ثمنه وكذلك لو إتخذه عصيرا، ثم باعه فعليه عشر ثمن العصير... ولا يأكل شيئا من طعام العشر، حتى يودي عشره.