معززین مفتیانِ کرام یہ مسئلہ میرے ساتھی کو درپیش ہیں کہ وہ دوبئ میں مسافر ہیں اور اس نے اپنے بیوی کو کال کیا اور فرمایا کہ میں تم کو طلاق دینا چاہتا ہوں تو بیوی نے پوچھاکہ کیا؟تو اس نے پھر فرمایا کہ طلاق طلاق یعنی دو دفعہ صرف طلاق طلاق کہا تو کیا طلاق واقع ہوا ہیں کہ نہیں اگر واقع ہوا ہیں تو کتنے واقع ہوے ہیں جزاکم اللہ خیرا
الجواب باسم ملہم بالصواب
واضح رہے کہ بیوی کی طرف نسبت کرکے صریح طلاق کے الفاظ استعمال کرنے کی صورت میں نیت کی ضرورت نہیں ہوتی، بلکہ معنوی طور پر بھی اگر نسبت پائی جائے تو طلاق واقع ہو جاتی ہے۔
پوچھی گئی صورت میں شوہر نے پہلے بیوی کو طلاق کی دھمکی دی، پھر بیوی کے پوچھنے پر دو دفعہ طلاق، طلاق کہا،لہٰذا ان الفاظ کے کہنے سے بیوی پر دو طلاقیں رجعی واقع ہوگئیں،جس کا حکم یہ ہے کہ شوہر عدت کے اندر بغیر نکاح کے رجوع کرسکتا ہے۔
رجوع کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ زبان سے کہہ دے کہ ’’میں نے رجوع کرلیا‘‘یا زبان سے کچھ نہ کہے، مگر آپس میں میاں بیوی کا تعلق قائم کرلے یا خواہش اور رغبت سے اس کو ہاتھ لگا لے، تب بھی رجوع ہو جائے گا، البتہ اگر عدت گزر گئی تو پھر نیا مہر مقرر کرکے دو گواہوں کی موجودگی میں باہمی رضامندی سے دوبارہ نکاح کرنا ہوگا،تاہم شوہر کے لیے آئندہ ایک طلاق کا حق باقی ہوگا۔
دلائل:
الدرالمختار:(3/ 247، ط : دارالفكر)
باب الصريح (صريحه ما لم يستعمل إلا فيه) ولو بالفارسية (كطلقتك وأنت طالق ومطلقة) بالتشديد قيد بخطابها، لأنه لو قال: إن خرجت يقع الطلاق أو لا تخرجي إلا بإذني فإني حلفت بالطلاق فخرجت لم يقع لتركه الإضافة إليها".
الشامية:(3/ 248، ط : دارالفكر)
قوله لتركه الإضافة) أي المعنوية فإنها الشرط والخطاب من الإضافة المعنوية، وكذا الإشارة نحو هذه طالق، وكذا نحو امرأتي طالق وزينب طالق. اهـ. ...لو أراد طلاقها تكون الإضافة موجودة ويكون المعنى فإني حلفت بالطلاق منك أو بطلاقك، ولا يلزم كون الإضافة صريحة في كلامه؛ لما في البحر لو قال: طالق فقيل له من عنيت؟ فقال امرأتي طلقت امرأته ...
لو قال: امرأة طالق أو قال طلقت امرأة ثلاثا وقال لم أعن امرأتي يصدق اهـ ويفهم منه أنه لو لم يقل ذلك تطلق امرأته، لأن العادة أن من له امرأة إنما يحلف بطلاقها لا بطلاق غيرها، فقوله إني حلفت بالطلاق ينصرف إليها ما لم يرد غيرها لأنه يحتمله كلامه.
*بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع: (3/ 102، ط :دارالكتب العلمية ) *
وحال الغضب ومذاكرة الطلاق دليل إرادة الطلاق ظاهرا فلا يصدق في الصرف عن الظاهر قال: وإن نوى بائنا فبائن.
والله تعالیٰ اعلم بالصواب
دار الافتاء جامعہ دارالعلوم حنفیہ (نعمان بن ثابت) اورنگی