السلام علیکم !
اگر بیٹے نے اپنی سگی ماں سے ( نعوذباللہ) زنا کیا اور باپ نے تصدیق کردی تو زانی بیٹے کی ماں اور باپ کا نکاح ختم ہوگیا؟ نیز اب اس صورت میں باپ اپنے زانی بیٹے اور دیگر بچوں کا خرچہ دینے کا پابند ہوگا یا نہیں؟ جبکہ بچے بالغ ہیں البتہ روز گار کی اہلیت نہیں ہے ۔
واضح رہے کہ زنا ہر شریعت میں حرام اور کبیرہ گناہ ہے، خصوصاً ماں کے ساتھ زنا کرنا نہایت سنگین جرم ہے، اگر بیٹا اپنی ماں سے زنا کرے تو ایسی صورت میں باپ پر بیوی ہمیشہ کے لیے حرام ہو جاتی ہے، لہذا اسے طلاق دے کر علیحدگی اختیار کرنا لازم ہے۔
نیز شریعت میں باپ پر نابالغ اولاد کا خرچہ واجب ہے اور بالغ بیٹا جب تک کمانے کے قابل نہ ہو جائے، اس کا نفقہ بھی باپ کے ذمہ ہے، جب بچے بالغ ہو جائیں اور کمانے کی صلاحیت رکھتے ہوں تو پھر باپ پر ان کا نفقہ واجب نہیں ۔
*الشامية:(32/3، ط:دارالفکر)*
قوله: وحرم أيضا بالصهرية أصل مزنيته) قال في البحر: أراد بحرمة المصاهرة الحرمات الأربع حرمة المرأة على أصول الزاني وفروعه نسبا ورضاعا وحرمة أصولها وفروعها على الزاني نسبا ورضاعا كما في الوطء الحلال ويحل لأصول الزاني وفروعه أصول المزني بها وفروعها.
اهـ
*وأيضاً:(32/3،ط: دارالفكر)*
قال في البحر: أراد بحرمة المصاهرة الحرمات الأربع حرمة المرأة على أصول الزاني وفروعه نسبا ورضاعا وحرمة أصولها وفروعها على الزاني نسبا ورضاعا كما في الوطء الحلال ويحل لأصول الزاني وفروعه أصول المزني بها وفروعها.
*الدر المختار:(263/1،ط: دارالفكر)*
وتجب) النفقة بأنواعها على الحر (لطفله) يعم الانثى والجمع (الفقير) الحر، فإن نفقة المملوك على مالكه والغني في ماله الحاضر، فلو غائبا فعلى الاب ثم يرجع إن أشهد
*الشامية:(612/3،ط: دارالفكر)*
قوله لطفله) هو الولد حين يسقط من بطن أمه إلى أن يحتلم، ويقال جارية، طفل، وطفلة، كذا في المغرب. وقيل أول ما يولد صبي ثم طفل ح عن النهر (قوله يعم الأنثى والجمع) أي يطلق على الأنثى كما علمته، وعلى الجمع كما في قوله تعالى ﴿أو الطفل الذين لم يظهروا﴾ [النور: ٣١] فهو مما يستوي فيه المفرد والجمع كالجنب والفلك والإمام - ﴿واجعلنا للمتقين إماما﴾ [الفرقان: ٧٤]- ولا ينافيه جمعه على أطفال أيضا كما جمع إمام على أئمة أيضا فافهم.
(قوله الفقير) أي إن لم يبلغ حد الكسب، فإن بلغه كان للأب أن يؤجره أو يدفعه في حرفة ليكتسب وينفق عليه من كسبه لو كان ذكرا.