السلام وعلیکم!
میرا یہ سوال ہے کہ میں اپنی بیوہ بہن کی مدد کرتی ہوں اور اس کے بچوں کی شادی میں بھی مدد کی اور ہر مہینے مقرر رقم اس کو دیتی ہوں لیکن پھر بھی وہ مجھے برا سمجھتی ہے اور بچے بھی برا سمجھتے ہے اور مجھے اسے تکلیف ہوتی ہے اس لیے میں نے کنارہ کشی اختیار کر لی ہے تو شریعت میں اس کا کیا حکم ہے ؟
اسلام میں معاف کرنا اور درگزر کرنا ایمان والوں کی نمایاں صفت ہے، قرآن کریم میں فرمایا گیا کہ اہلِ فضل و وسعت کو چاہیے کہ قرابت داروں اور محتاجوں پر فی سبیل اللہ خرچ کرتے رہیں اور ان کی لغزشوں سے درگزر کریں، کیا تم نہیں چاہتے کہ اللہ تمہیں معاف فرمائے،حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے واقعۂ افک کے بعد جب حضرت مسطح بن اثاثہ رضی اللہ عنہ کی مدد روک دی تو یہ آیت نازل ہوئی، صدیق اکبرؓ نے فوراً رجوع کیا اور مسطح کا وظیفہ دوبارہ جاری کردیا۔
اس میں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ ہمیں بھی دوسروں کی کوتاہیوں کو معاف کرنا چاہیے، تاکہ اللہ تعالیٰ ہماری خطاؤں کو معاف فرمائے۔
لہٰذا پوچھی گئی صورت میں آپ کو اپنی بیوہ بہن کے ساتھ معافی اور درگزر کا معاملہ کرنا چاہیے اور ان کے ساتھ احسان کرکے ان پر خرچ کرنا چاہیے۔
*القران الکریم: (22/24)*
وَلَا يَأْتَلِ أُوْلُوا الْفَضْلِ مِنكُمْ وَالسَّعَةِ أَن يُؤْتُوا أُوْلِي الْقُرْبَىٰ وَالْمَسَاكِينَ وَالْمُهَاجِرِينَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ۖ وَلْيَعْفُوا وَلْيَصْفَحُوا ۗ أَلَا تُحِبُّونَ أَن يَغْفِرَ اللَّهُ لَكُمْ ۗ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ.
*مرقاةالمفاتیح:(1967/5،ط:دارالفکر)*
قال الطيبي رحمه الله: الأولى أن ينزل الحديث على معنى قوله تعالى: ﴿ولا تستوي الحسنة ولا السيئة ادفع بالتي هي أحسن﴾ [فصلت: ٣٤] يعني إذا خانك صاحبك فلا تقابله بجزاء خيانته، وإن كان ذاك حسنا، بل قابله بالأحسن الذي هو عدم المكافأة، والإحسان إليه أي: أحسن إلى من أساء إليك.
بیوہ بہن اور اس کے بچوں کے مالی تعاون سے ان کی ناپسندیدگی کی وجہ سے کنارہ کشی اختیارکرنا
یونیکوڈ رشتہ داروں کے حقوق و فرائض 0