السلام علیکم!
عرض ہے کہ بچہ کی پیدایش کے نو ماہ بعد یا سال بعد انتقال ہو جائے تو فوت شدہ بچے کا عقیقہ کرنا ضروری ہے یا نہیں؟
عقیقہ کا مسنون وقت یہ ہے کہ پیدائش کے ساتویں دن کرے، اگر ساتویں دن نہ کر سکے تو چودھویں (14) دن، ورنہ اکیسویں (21) دن کر لے، اس کے بعد عقیقہ کرنا مباح ہے، اگر کر لیا تو عقیقے کا ثواب ملے گا، لہذا اگر بچپن میں عقیقہ نہ کیا ہو تو بڑی عمر میں بالغ ہونے کے بعد بھی عقیقہ کرنے سے عقیقہ ادا ہو جائے گا، اگرچہ وقت مستحب کی فضیلت حاصل نہیں ہوگی، جب بھی عقیقہ کریں تو افضل یہ ہےکہ پیدائش کے دن کے حساب سے ساتویں دن کریں، البتہ بچے کے انتقال کے بعد عقیقہ نہیں کیا جاتا، لہذا پوچھی گئی صورت میں عقیقہ لازم نہیں۔
*سنن الترمذي:(181/3،رقم الحديث:1522،ط: دارالغرب الإسلامي)*
حدثنا علي بن حجر، قال: أخبرنا علي بن مسهر ، عن إسماعيل بن مسلم، عن الحسن ، عن سمرة قال: قال رسول الله ﷺ: «الغلام مرتهن بعقيقته،» يذبح عنه يوم السابع، ويسمى، ويحلق رأسه.
*العقود الدرية في تنقيح الفتاوى الحامدية:(213/2،ط: دارالمعرفة)*
قال ووقتها بعد تمام الولادة إلى البلوغ فلا يجزئ قبلها وذبحها في اليوم السابع يسن والأولى فعلها صدر النهار عند طلوع الشمس بعد وقت الكراهة للتبرك بالبكور وليس من السبعة يوم الولادة خلافا للشيخين.