بچوں کے مسائل

اولاد کو دادا کے نام کی طرف منسوب کروانے کا حکم

فتوی نمبر :
423
| تاریخ :
0000-00-00
معاشرت زندگی / اولاد کے مسائل و احکام / بچوں کے مسائل

اولاد کو دادا کے نام کی طرف منسوب کروانے کا حکم

کیا فرماتے ہیں علماء کرام کہ ایک بندہ جاپان کی نیشنلٹی حاصل کر کے وہیں پہ رہائش پذیر ہے اور وہاں دوسری شادی بھی کی ہے، پہلی بیوی پاکستان میں ہے اور ان سے دو بڑے بچے بھی ہیں، لیکن جاپان کا قانون دوسری شادی قبول نہیں کرتا تو وہ پاکستان میں اپنے دو بڑے بیٹوں کا ریکارڈ اپنے ہی والد کے نام پہ کرنا چاہتا ہے، جس سے ان کی پہلی بیوی کے دو بیٹے جاپان میں جانے کے اہل ہو جائیں گے تو ایسا کرنا درست ہے یا نہیں؟ شرعی حوالے سے وضاحت درکار ہے۔شکریہ

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

واضح رہے کہ شریعتِ مطہرہ نے نسب کی حفاظت کو نہایت اہمیت دی ہے، قرآن و حدیث میں یہ واضح حکم موجود ہے کہ ہر شخص کو اس کے حقیقی والد کی طرف منسوب کیا جائے۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:” جو شخص جان بوجھ کر اپنے والد کے بجائے کسی اور کی طرف اپنی نسبت کرے، اس پر جنت حرام ہے“۔(بخاری و مسلم)
لہذا پوچھی گئی صورت میں بچوں کو دادا کی طرف منسوب کروانا شرعاً ناجائز اور کبیرہ گناہ ہے، نسب میں تبدیلی کرنا حرام ہے، اس کے بجائے صحیح صورت یہ ہے کہ ان کو حقیقی والد کے نام پر رکھا جائے، سرپرست کے خانے میں دادا کا نام لکھا جائے اور جاپان کے قانون کے مطابق کوئی اور جائز قانونی راستہ اختیار کیا جائے۔

حوالہ جات

*القرآن الکریم(:الأحزاب:4:33)*
وَمَا جَعَلَ أَدْعِيَاءَكُمْ أَبْنَاءَكُمْ ذَلِكُمْ قَوْلُكُمْ بِأَفْوَاهِكُمْ وَاللَّهُ يَقُولُ الْحَقَّ وَهُوَ يَهْدِي السَّبِيلَ ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِنْدَ اللَّهِ فَإِنْ لَمْ تَعْلَمُوا آبَاءَهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ وَمَوَالِيكُمْ وَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ فِيمَا أَخْطَأْتُمْ بِهِ وَلَكِنْ مَا تَعَمَّدَتْ قُلُوبُكُمْ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا.

*صحيح البخاري:(156/8،رقم الحديث:6766،ط: دار طوق النجاة)*
حدثنا مسدد، حدثنا خالد هو ابن عبد الله، حدثنا خالد، عن أبي عثمان، عن سعد رضي الله عنه قال: سمعت النبي ﷺ يقول: «من ادعى إلى غير أبيه وهو يعلم أنه غير أبيه فالجنة عليه حرام.

*مرقاة المفاتيح:(2170/5،ط:رقم الحديث:3314،ط: دارالفكر)*
وعن سعد بن أبي وقاص وأبي بكرة قالا: قال رسول الله ﷺ: (من ادعى): بتشديد الدال أي انتسب (إلى غير أبيه وهو يعلم): أي: والحال أنه يعلم (أنه غير أبيه فالجنة عليه حرام): أي: إن اعتقد حله، أو قبل أن يعذب بقدر ذنبه، أو محمول على الزجر عنه ; لأنه يؤدي إلى فساد عريض، وفي بعض النسخ: فالجنة حرام عليه، وهو مخالف للأصول المعتمدة. (متفق عليه) . ورواه أحمد، وأبو داود، وابن ماجه عنهما، وروى أبو داود، عن أنس بلفظ: («من ادعى إلى غير أبيه أو انتمى إلى غير مواليه، فعليه لعنة الله المتتابعة إلى يوم القيامة).

واللہ تعالی اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ دارالعلوم حنفیہ (نعمان بن ثابت)

فتوی نمبر 423کی تصدیق کریں
18
Related Fatawa متعلقه فتاوی
  • اسقاط حمل کا حکم

    یونیکوڈ   بچوں کے مسائل 0
  • اولاد کو دادا کے نام کی طرف منسوب کروانے کا حکم

    یونیکوڈ   بچوں کے مسائل 0
  • بچے کی پیدائش پر مبارک باد دینے کا طریقہ

    یونیکوڈ   بچوں کے مسائل 0
...
Related Topics متعلقه موضوعات