خلع

خلع نامہ میں پر دستخط کرنے سے خلع کا حکم

فتوی نمبر :
413
| تاریخ :
0000-00-00
معاملات / احکام طلاق / خلع

خلع نامہ میں پر دستخط کرنے سے خلع کا حکم

السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکتہ
سوال :
کورٹ کی طرف سے جن الفاظ و جملوں کے ساتھ خلع کے پیپر بنائے جاتے ہیں، وہ یقینا" پورے پاکستان کے تمام کورٹس میں ایک ہی پیٹرن پر مشتمل ہوتے ہوں گے۔
لہذا درج ذیل صورتوں میں خلع کی شرعی حیثیت کیا ہوگی؟
نیز شرعیت مطہرہ کی رو سے خلع کا واقع ہونا کون سی طلاق کے قائم مقام ہوتا ہے ؟
بیوی ناراض ہوکر یا آپس میں میاں بیوی کا ذہن ناملنے کی وجہ سے بیوی اپنے مائیکے چلی جائے اور خلع کے پیپر شوہر کو بھیج دے اور شوہر پیپر پر دستخط کرکے واپس لوٹا دے۔
1 - شوہر نان نفقہ و سکنہ دے رہا تھا اور آئندہ بھی دینے کو تیار تھا۔
2 - شوہر آمدنی کی کمی کی وجہ سے بیوی کو دو وقت کی روٹی اور کرایہ کے مکان میں رکھا ہوا تھا۔
3 - شوہر سست الوجود ہونے کی وجہ سے نان نفقہ و سکنہ دینے سے قاصر تھا۔
درج بالا کن صورتوں میں خلع واقع ہوجائے گا اور کن صورتوں میں نہیں ہوگا ؟
جواب عنایت فرماکر عنداللہ ماجور ہوں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

واضح رہے کہ اگر میاں بیوی کے درمیان تعلقات درست نہ ہوں اور صلح ممکن نہ ہو تو اسلام میں عورت کو خلع کا حق دیا گیا ہے، اس کے لیے دونوں کی رضامندی ضروری ہوتی ہے، اگر شوہر اپنی مرضی اور اطمینان کے ساتھ خلع کے کاغذات پر دستخط کر دے تو خلع نافذ ہو جاتا ہے۔
شرعاً خلع کے واقع ہونے سے ایک طلاقِ بائن شمار ہوتی ہے، اس کے بعد میاں بیوی کا رشتہ ختم ہو جاتا ہے، عورت عدت گزارنے کے بعد کہیں اور نکاح کر سکتی ہے اور اگر دونوں دوبارہ ساتھ رہنا چاہیں تو نئے مہر کے ساتھ، گواہوں کی موجودگی میں نیا نکاح کرنا ضروری ہوگا۔
لہذا پوچھی گئی صورت میں ایک طلاق بائن ہوچکی ہے، لہذا عورت عدت کے بعد دوسری جگہ یا اسی شوہر سے دوسرا نکاح کر سکتی ہے۔

حوالہ جات

*الشامية:(441/3،: دارالفكر)*
وأما ركنه فهو كما في البدائع: إذا كان بعوض الإيجاب والقبول لأنه عقد على الطلاق بعوض، فلا تقع الفرقة، ولا يستحق العوض بدون القبول.

*بدائع الصنائع:(145/3،ط: دار الكتب العلمية)*
وأما ركنه فهو الإيجاب والقبول؛ لأنه عقد على الطلاق بعوض فلا تقع الفرقة، ولا يستحق العوض بدون القبول بخلاف النوع الأول فإنه إذا قال: خالعتك ولم يذكر العوض ونوى الطلاق فإنه يقع الطلاق عليها، سواء قبلت أو لم تقبل؛ لأن ذلك طلاق بغير عوض فلا يفتقر إلى القبول وحضرة السلطان ليست بشرط لجواز الخلع عند عامة العلماء فيجوز عند غير السلطان.

*المبسوط للسرخسى:(173/6،ط: دارالمعرفة)*
(قال): والخلع جائز عند السلطان وغيره؛ لأنه عقد يعتمد التراضي كسائر العقود، وهو بمنزلة الطلاق بعوض، وللزوج ولاية إيقاع الطلاق، ولها ولاية التزام العوض، فلا معنى لاشتراط حضرة السلطان في هذا العقد.

واللہ تعالی اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ دارالعلوم حنفیہ (نعمان بن ثابت)

فتوی نمبر 413کی تصدیق کریں
20
Related Fatawa متعلقه فتاوی
  • خلع نامہ میں پر دستخط کرنے سے خلع کا حکم

    یونیکوڈ   خلع 0
  • خلع سے واقع ہونے والا طلاق

    یونیکوڈ   خلع 0
  • عدالت کی طرف سے ملنے والی خلع اور فسخ نکاح کا حکم

    یونیکوڈ   خلع 0
...
Related Topics متعلقه موضوعات