كيا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ روایت ہے کہ حضرت علی نے حضرت فاطمہ کو غسل دیا تھا ان کے وفات کے بعد کیا یہ روایت درست ہے ؟ اور اسی طرح ایک آدمی اپنی بیوی کو بیوی کے وفات کے بعد اس کا چہرہ دیکھ سکتا ہے ؟یا اپنی بیوی کو چھو سکتا ہے ؟اور اسی طرح اپنی بیوی کو غسل دینا اور اپنے کے ہاتھ سے قبر میں اتارنا جائز ہے ؟
1)حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو وفات کے بعد ان کی وصیت کے مطابق حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نےغسل دیا ،حضرت سلمیٰ ام رافع اور امِ ایمن رضی اللہ تعالیٰ عنھن بھی ان کےساتھ غسل میں شریک تھیں اور حضرت علی رضی اللہ عنہ غسل کے انتظامات اور نگرانی فرماتے رہے، اس وجہ سے بعض روایات میں غسل دینے کی نسبت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف کردی گئی، یہی راجح قول ہے اور اگر بالفرض یہ ثابت ہوجائے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے انہیں غسل دیا تھا تو یہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خصوصیت ہے۔
2) بیوی کا انتقال ہوجائے تو شوہر اس کو غسل نہیں دے سکتا اور نہ ہی اس کو چھو سکتا ہے، البتہ چہرہ دیکھ سکتا ہے، جبکہ شوہر کا انتقال ہوجائے تو بیوی اس کو غسل دے سکتی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ شوہر کے انتقال کی صورت میں دورانِ عدت مرحوم شوہر کا حق اس کی بیوہ پر برقرار رہتا ہے اور نکاح بھی عدت مکمل ہونے تک قائم رہتا ہے۔
3) شوہر بیوی کو قبر میں اتارسکتا ہے، بشرطیکہ اس کے جسم کو ہاتھ نہ لگے ،تاہم دوسرے محارم( باپ، بیٹا، بھائی، چچا، ماموں وغیرہ میں سے)کوئی موجود ہوں تو ان کا حق زیادہ ہے۔
*الدرالمختار:(2/ 198،ط:دارالفکر)*
(ويمنع زوجها من غسلها ومسها لا من النظر إليها على الأصح) منية.وقالت الأئمة الثلاثة: يجوز لأن عليا غسل فاطمة رضي الله عنها.
قلنا: هذا محمول على بقاء الزوجية لقوله عليه الصلاة والسلام «كل سبب ونسب ينقطع بالموت إلا سببي ونسبي» مع أن بعض الصحابة أنكر عليه شرح المجمع
للعيني (وهي لا تمنع من ذلك).
*حاشية ابن عابدين : (2/ 198، ط:دارالفکر)*
قال في شرح المجمع لمصنفه فاطمة - رضي الله تعالى عنها - غسلتها أم أيمن حاضنته صلى الله عليه وسلم ورضي عنها فتحمل رواية الغسل لعلي - رضي الله تعالى عنه - على معنى التهيئة والقيام التام بأسبابه، ولئن ثبتت الرواية فهو مختص به، ألا ترى «أن ابن مسعود رضي الله عنه لما اعترض عليه بذلك أجابه بقوله: أما علمت أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: إن فاطمة زوجتك في الدنيا والآخرة» فادعاؤه الخصوصية دليل على أن المذهب عندهم عدم الجواز اهـ. مطلب في حديث «كل سبب ونسب منقطع إلا سببي ونسبي»
قلت: ويدل على الخصوصية أيضا الحديث الذي ذكره الشارح وفسر بعضهم السبب فيه بالإسلام والتقوى، والنسب بالانتساب ولو بالمصاهرة والرضاع، ويظهر لي أن الأولى كون المراد بالسبب القرابة السببية كالزوجية والمصاهرة وبالنسب القرابة النسبية لأن سببية الإسلام والتقوى لا تنقطع عن أحد فبقيت الخصوصية في سببه ونسبه صلى الله عليه وسلم ولهذا قال عمر - رضي الله تعالى عنه -: فتزوجت أم كلثوم بنت علي لذلك.
*البداية والنهاية: (7/ 45،ط:دارابن کثیر)*
ولما حضرتها الوفاة أوصتْ إلى أسماء بنت عُمَيْس - أمرأة الصديق - أن تُغَسِّلَها، فَغَسَّلَتْها هي وعليُّ بن أبي طالب، وسلمى أم رافع، قيل: والعبَّاسُ بنُ عبد المطلب وما رُوي من أنّها اغتسلتْ قبلَ وفاتها وأوصتْ أن لا تُغسَّلَ بعد ذلك فضعيفٌ لا يُعوَّلُ عليه، والله أعلم.
حضرت علی رضی اللہ عنہ کا حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو غسل دینا،شوہر کا بیوی کی لاش کو دیکھنا ،چھونا ، غسل دینا اور قبر میں اتارنا
یونیکوڈ تجہیز و تکفین 0