رضاعت

رضاعی بیٹے کو رضاعی باپ کی طرف منسوب کرنے کا حکم

فتوی نمبر :
397
| تاریخ :
0000-00-00
معاشرت زندگی / اولاد کے مسائل و احکام / رضاعت

رضاعی بیٹے کو رضاعی باپ کی طرف منسوب کرنے کا حکم

السلام علیکم مفتی صاحب
اگر کسی بچے کو لے عورت اس کو دودھ پلائے ، تو کیا اس بچے کو اپنے نام سے پکار سکتی ہے؟ اور کیا اس کا نام اپنے باقی بچوں کی طرح رکھ کر " ب " فارم بنوا سکتی ہے ؟ یا اس بچے کو اپنے شوہر کی طرف منسوب کرنا جائز ہے؟ یااس کے باپ کےنام سے پکارے ؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

واضح رہے کہ کسی بھی شخص کو اس کے حقیقی والد کے علاوہ کسی اور کی طرف منسوب کرنا جائز نہیں ہے، لہٰذا پوچھی گئی صورت میں جس عورت نے بچے کو دودھ پلایا ہے وہ عورت بچے کی رضاعی ماں اور اس کا شوہر بچے کا رضاعی باپ کہلائے گا، لیکن وہ حقیقی والدین کی حیثیت نہیں رکھتے، اس لیے "ب" فارم یا کسی بھی سرٹیفیکیٹ میں حقیقی والد کے علاوہ کسی اور کا نام درج کرنا درست نہیں۔

حوالہ جات

القرآن الكريم:(الأحزاب5:33)*
وَمَا جَعَلَ أَدْعِيَاءَكُمْ أَبْنَاءَكُمْ ذَلِكُمْ قَوْلُكُمْ بِأَفْوَاهِكُمْ وَاللَّهُ يَقُولُ الْحَقَّ وَهُوَ يَهْدِي السَّبِيلَ (4) ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِنْدَ اللَّهِ فَإِنْ لَمْ تَعْلَمُوا اٰبَاءَهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ وَمَوَالِيكُمْ وَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ فِيمَا أَخْطَأْتُمْ بِهِ وَلَكِنْ مَا تَعَمَّدَتْ قُلُوبُكُمْ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا(5)

*صحيح البخاري:(رقم الحديث:6766،ط:دارطوق النجاة)*
عن سعد ﵁ قال: سمعت النبي ﷺ يقول: «من ادعى إلى غير أبيه وهو يعلم أنه غير أبيه فالجنة عليه حرام. ٦٧٦٧ - فذكرته لأبي بكرة فقال: وأنا سمعته أذناي ووعاه قلبي من رسول الله ﷺ.»

واللہ تعالی اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ دارالعلوم حنفیہ (نعمان بن ثابت)

فتوی نمبر 397کی تصدیق کریں
22
Related Fatawa متعلقه فتاوی
  • رضاعی بیٹے کو رضاعی باپ کی طرف منسوب کرنے کا حکم

    یونیکوڈ   رضاعت 1
...
Related Topics متعلقه موضوعات