السلام علیکم
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے کے بارے میں اور علمائے عظام مذکورہ مسئلے کے بارے میں ہمارے ہاں ایک شادی ہوئی ہے 2010 میں۔ اُس وقت جو مہر رکھا گیا تھا وہ رکھا گیا تھا ایک لاکھ پچاس ہزار روپے۔ جب یہ مہر رکھا گیا تو وہاں جو جرگے کے اندر شادی کے لوگ تھے انہوں نے کہا کہ یہ بہت زیادہ ہے، کم کریں۔ انہوں نے نہیں کیا۔ پھر یہ طے پایا کہ لڑکے والوں نے کہا کہ ہم یہ مہر نقد دے دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم نقدی مہر نہیں لیں گے، یہ عندالطلَب ہوگا۔ کہ جب ہم طلب کریں لڑکی کے لیے، تو اس وقت آپ دیں گے۔جب ہم نے کہا کہ ہم نقد دینا چاہتے ہیں، تو وہاں پہ جو لوگ بیٹھے تھے انہوں نے کہا:
"اگر آج آپ لوگوں کے پاس پیسے ہیں تو آپ اگر ڈیڑھ لاکھ روپے مہر نقد دے دیتے ہیں، تو کل کسی اور کی شادی ہوگی، تو اُس کے پاس نہیں ہوں گے، تو مسئلہ بنے گا، لہٰذا ٹھیک ہے، یہ عندالطلَب لکھتے ہیں۔"یہ لکھنے کے بعد، چونکہ تھوڑی سی گرمی سردی بھی ہو گئی، اُس وقت ڈیڑھ لاکھ روپے بھی بڑی چیز ہوتی تھی، تو خیر شادی ہو گئی، نکاح وغیرہ ہو گیا، رخصتی بھی ہو گئی۔ اس کے بعد جو نکاح نامے کے فارم تھے، ان پر انہوں نے لکھ لیا کہ مہر جو ہے زیورات کی صورت میں ادا کر دیا گیا ہےاب ان کے درمیان کچھ اختلاف ہو گئے، نچاکی کی صورت میں طلاق تک بات پہنچ گئی ہے۔ اب لڑکی والے کہتے ہیں کہ یہ جو مہر ہے، یہ لڑکی کا ہے۔ اور لڑکے والے کہتے ہیں کہ اگر آپ ہم سے ڈیڑھ لاکھ روپے مہر لینا چاہتے ہیں تو ہم دینے کو تیار ہیں، لیکن جو آپ کے پاس ہمارا زیور ہے، اگر آپ اس سے ایک لاکھ پچاس ہزار روپے کی رقم لینا چاہیں تو وہ بھی لے سکتے ہیں، لیکن وہ بضد ہیں کہ ہم سارا زیور رکھیں گے۔
تو اس صورت میں کیا مسئلہ ہوگا؟ کیا وہ سارا زیور لڑکی والوں کا ہو گا؟ یا اس زیور سے وہ ایک لاکھ پچاس ہزار روپے لے سکتے ہیں اور باقی زیور واپس کریں گے؟ یہ ذرا آپ میری رہنمائی فرمائیں ۔جزاک اللہ خیراواحسن الجزاء
واضح رہے کہ نکاح کے وقت شوہر پر لازم ہے کہ بیوی کو مہر ادا کرے، مہر کی ادائیگی رقم یا اس کے برابر کسی قیمتی چیز، مثلاً زیورات، کی صورت میں بھی ہو سکتی ہے۔
اگر نکاح کے وقت ڈیڑھ لاکھ روپے مہر (موجل) طے ہوا اور مرد نے مہر ادا نہیں کیا تو اب عورت کو مہر دینا واجب ہے،نیز بیوی کو جو سونا بطور تحفہ (ہبہ) دیا گیا اور اس پر بیوی نے قبضہ بھی کر لیا، طلاق کے بعد شوہر اس تحفے کو واپس لینے کا حق نہیں رکھتا، کیونکہ شوہر نے یہ چیز اس وقت بطور ہبہ دی تھی جب وہ اس کی بیوی تھی اور بیوی کو دیا گیا ہبہ شرعاً واپس نہیں لیا جا سکتا ۔
الشامية:(704/5،ط: دارالفكر)*
(والزاي الزوجية وقت الهبة فلو وهب لامرأة ثم نكحها رجع ولو وهب لامرأته لا) كعكسه.
*مجمع الأنهر:(362/2،ط: دارإحياء التراث العربى)*
(والزاي الزوجية) أي الزوجية مانعة من الرجوع؛ لأن المقصود فيها الصلة أي الإحسان كما في القرابة (وقت الهبة فله الرجوع لو وهب، ثم نكح)؛ لأنها لم تكن زوجة وقت الهبة (لا) يرجع (لو وهب، ثم أبان) لوجود الزوجية المانعة وقت الهبة.
*ملتقى الأبحر:(502/1،ط: دارالكتب العلمية)*
والزاي الزوجية وقت الهبة فله الرجوع لو وهب ثم نكح لا لو وهب ثم أبان.