حقوق مسجد

مصلے کو ایک جگہ سے دوسری جگہ تبدیل کرنا

فتوی نمبر :
337
| تاریخ :
2025-08-18
عبادات / احکام مسجد / حقوق مسجد

مصلے کو ایک جگہ سے دوسری جگہ تبدیل کرنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
دبئی میں ہم نے ایک بڑی جگہ بطور گودام کرائے پر لی ہے، جس کے درمیان نماز پڑھنے کی جگہ ہے، یہ جگہ ہم سے پہلے کرایہ دار نے نماز کیلئے مختص کی تھی مکمل مسجد نہیں بلکہ عارضی طور پر بنائی گئی ہے باقاعدہ ایک امام مختص ہے البتہ جمعہ کی نماز نہیں ہوتی.... اب جگہ میں نے کرایہ پر لی ہے، میرا ارادہ ہے کہ اس جگہ کو اپنے کام میں لاؤں، نماز پڑھنے کی جگہ کیلئے میں نے یہ سوچا ہے کہ اسی جگہ پلرز کھڑے کر کے (گودام کی چھت نہیں ہے) اس کے اوپر نماز کیلئے جگہ بناؤں تھوڑی سی مزید ترقی دے کر وضو خانہ وغیرہ بنا کر اور چونکہ میں بھی کرایہ دار ہوں لہذا یہ جگہ بھی عارضی ہوگی.
سوال یہ ہے کہ اس جگہ کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ اور کیا میرے لئے یہ سب اضافہ جات یا ترامیم جائز ہے؟ آیا مالک سے اجازت لینا ضروری ہے یا نہیں؟ نیز مستقبل میں اس جگہ کی کیا حیثیت ہوگی؟
دین متین کی روشنی میں جواب عنایت فرما کر ممنون فرمائیں.
نوازش.
ولی خان، کراچی.

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

1)واضح رہے کہ مسجد اس جگہ کو کہا جاتا ہے جسے خالص اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے وقف کر دیا جائے اور بندوں کا کوئی حق اس میں شامل نہ ہو، وقف کرنے والا اسے بیچ سکتا ہے نہ اس میں میراث جاری ہوتی ہے۔

2)بڑی عمارتوں،کمپنیوں میں جو جگہیں نماز کے لیے خاص کی جاتی ہیں، وہ مستقل مسجدِ شرعی نہیں ہوتیں، ان پر مسجد کے احکام لاگو نہیں ہوتے، لہٰذا ان میں نماز پڑھنے پر مسجد کا ثواب نہیں ملتا اور نہ ہی ان میں اعتکاف درست ہوتا ہے،البتہ ان میں با جماعت نماز پڑھنا جائز ہے اور جماعت کا ثواب حاصل ہوگا، ایسی جگہوں کو مالک بیچ بھی سکتا ہے، مالک کی اجازت کے بغیر اس میں کسی قسم کے تصرف کا اختیار کسی اور کو نہیں ہے۔
3)مسجد شرعی کو ختم کر کے دوسری جگہ بنانا جائز نہیں، جبکہ مصلے کی جگہ کو تبدیل کرنا جائز ہے، تاہم اس میں بھی مالک کی اجازت ضروری ہے۔

حوالہ جات

الشامية:(355/4،ط: دارالفكر)
(قوله: ويزول ملكه عن المسجد إلخ) اعلم أن المسجد يخالف سائر الأوقاف في عدم اشتراط التسليم إلى المتولي والمصلى) بالفعل و(بقوله جعلته مسجدا) عند الثاني (وشرط محمد) والإمام (الصلاة فيه)
عند محمد وفي منع الشيوع عند أبي يوسف، وفي خروجه عن ملك الواقف عند الإمام وإن لم يحكم به حاكم كما في الدرر وغيره.

ملتقى الابحر:(595/1،ط: دار الكتب العلمية)
وإن جعله لغير مصالحه أو جعل فوقه بيتا وجعل بابه إلى الطريق وعزله أو اتخذ وسط داره مسجدا وأذن بالصلاة فيه لا يزول ملكه عنه وله بيعه فيورث وعند أبي يوسف يزول ملكه بمجرد القول مطلقا ولو ضاق المسجد وبجنبه طريق العامة يوسع منه وبالعكس رباط استغنى.

البحر الرائق:(271/5،ط: دارالكتاب الإسلامي)
قوله ومن جعل مسجدا تحته سرداب أو فوقه بيت وجعل بابه إلى الطريق وعزله أو اتخذ وسط داره مسجدا وأذن للناس بالدخول فله بيعه ويورث عنه) لأنه لم يخلص لله تعالى لبقاء حق العبد متعلقا به والسرداب بيت يتخذ تحت الأرض لغرض تبريد الماء وغيره كذا في فتح القدير وفي المصباح السرداب المكان الضيق يدخل فيه والجمع سراديب. اهـ.
وحاصله أن شرط كونه مسجدا أن يكون سفله وعلوه مسجدا لينقطع حق العبد عنه.

فتح القدير للكمال ابن همام:(22/8،: دارالفكر)
لأن التصرف في ملك الغير والأمر به إنما لا يجوز لو كان بغير إذن المالك ورضاه، كما لو غصب ملك الغير أو أمر بغصبه.

واللہ تعالی اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ دارالعلوم حنفیہ (نعمان بن ثابت)

فتوی نمبر 337کی تصدیق کریں
33
Related Fatawa متعلقه فتاوی
  • مصلے کو ایک جگہ سے دوسری جگہ تبدیل کرنا

    یونیکوڈ   اسکین   حقوق مسجد 0
  • کسی زمین کی صرف اوپری حصے کو مسجد کے لیے وقف کرنا*

    یونیکوڈ   حقوق مسجد 0
...
Related Topics متعلقه موضوعات