فدیہ

فدیۂ نماز و روزہ کا شرعی حکم

فتوی نمبر :
331
| تاریخ :
0000-00-00
عبادات / روزہ و رمضان / فدیہ

فدیۂ نماز و روزہ کا شرعی حکم

السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکتہ
سوال : نماز اور روزے کا فدیہ کتنا ہوتا ہے نیز فدیہ کی ادائیگی کن کن صورتوں میں ہوتی ہے ?
جواب عنایت فرماکر عنداللہ ماجور ہوں۔ جزاکم اللہ تعالی احسن الجزآء فی الدارین

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

واضح رہے کہ اگر کسی شخص کے ذمے قضا نمازیں اور روزے ہوں اور اس نے فدیہ ادا کرنے کی وصیت کی ہو تو اس کی وفات کے بعد ترکے کے ایک تہائی حصے سے فدیہ ادا کیا جائے گا، اگر یہ ایک تہائی حصہ تمام نمازوں اور روزوں کے فدیہ کے لیے کافی ہو تو بہتر، ورنہ ورثہ کے ذمے باقی فدیہ دینا لازم نہیں،البتہ اگر ورثہ از خود مرحوم کی طرف سے باقی فدیہ ادا کریں تو یہ ان کے لیے باعثِ اجر و ثواب ہوگا۔
اور اگر مرحوم نے فدیے کی وصیت ہی نہیں کی تو ورثہ پر فدیہ دینا لازم نہیں، لیکن اگر وہ از خود رضامندی سے ادا کر دیں تو شرعاً جائز اور باعثِ ثواب ہے۔
نیز فدیہ اس وقت دیا جائےگا جب یہ شخص اتنا بیمار ہوجائےکہ واپس صحت یاب ہونے کی امید نہ ہو، یا انتقال ہوجائے۔
ایک روزے اور ایک نماز (یعنی ایک وقت) کا فدیہ ایک صدقہ فطر کے برابر ہے اور روزانہ چھ نمازیں (پانچ فرض اور وتر) ہوتی ہیں، اس حساب سے ایک دن کی نمازوں کا فدیہ چھ صدقہ فطر کے برابر ہوگا ۔صدقہ فطر کی مقدار پونے دو کلو گندم یا اس کی مروجہ قیمت ہے۔

حوالہ جات

الهندية:(207/1،ط: دار الفكر)*
(ومنها: كبر السن) فالشيخ الفاني الذي لا يقدر على الصيام يفطر ويطعم لكل يوم مسكينا كما يطعم في الكفارة كذا في الهداية والعجوز مثله كذا في السراج الوهاج وهو الذي كل يوم في نقص إلى أن يموت كذا في البحر الرائق ثم إن شاء أعطى الفدية في أول رمضان بمرة وإن شاء أخرها إلى آخره كذا في النهر الفائق.
ولو قدر على الصيام بعد ما فدى بطل حكم الفداء الذي فداه حتى يجب عليه الصوم هكذا في النهاية.

*الدرالمختار:(150/1،ط: دار الفكر )*
وللشيخ الفاني العاجز عن الصوم الفطر ويفدي) وجوبا ولو في أول الشهر وبلا تعدد فقير كالفطرة لو موسرا وإلا فيستغفر الله.

*حاشیة ابن عابدين:(427/1،ط دار الفكر )*
(قوله وللشيخ الفاني) أي الذي فنيت قوته أو أشرف على الفناء، ولذا عرفوه بأنه الذي كل يوم في نقص إلى أن يموت نهر، ومثله ما في القهستاني عن الكرماني: المريض إذا تحقق اليأس من الصحة فعليه الفدية لكل يوم من المرض اهـ وكذا ما في البحر لو نذر صوم الأبد فضعف عن الصوم لاشتغاله بالمعيشة له أن يطعم ويفطر لأنه استيقن أنه لا يقدر على القضاء (قوله العاجز عن الصوم) أي عجزا مستمرا كما يأتي، أما لو لم يقدر عليه لشدة الحر كان له أن يفطر ويقضيه في الشتاء فتح (قوله ويفدي وجوبا) لأن عذره ليس بعرضي للزوال حتى يصير إلى القضاء فوجبت الفدية نهر، ثم عبارة الكنز وهو يفدي إشارة إلى أنه ليس على غيره الفداء لأن نحو المرض والسفر في عرضة الزوال فيجب القضاء وعند العجز بالموت تجب الوصية بالفدية.

واللہ تعالی اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ دارالعلوم حنفیہ (نعمان بن ثابت)

فتوی نمبر 331کی تصدیق کریں
28
Related Fatawa متعلقه فتاوی
  • فدیۂ نماز و روزہ کا شرعی حکم

    یونیکوڈ   فدیہ 0
...
Related Topics متعلقه موضوعات