کاروبار

انشورنس کی اصل رقم واپس لینے کا حکم

فتوی نمبر :
282
| تاریخ :
0000-00-00
معاملات / مالی معاوضات / کاروبار

انشورنس کی اصل رقم واپس لینے کا حکم

السلام علیکم
حضرت پوچھنا یہ ہے کہ ایک اسکوٹر لی ہے قسطوں پہ اور وہ کمپنی کی اینی پالیسی ہے کیونکہ کسی شوروم سے نہیں لیے کمپنی کی پالیسی ہے کہ وہ اس کو انشورڈ کر کے دیتی ہے اب انشورڈ کرائی ہے اور اس کے بعد وہ اسکوٹر چھن جاتی ہے اب کمپنی جو انشورنس کرتی ہے تو وہ اس کے پیسے یعنی وہی کمپنی نے دینے تھے۔وہ کمپنی ڈیفالٹر ہو گئی ہے اب وہ دے رہی ہے جو اس کا مارکہ ہے یعنی جیسے سوزوکی کمپنی انشورٹ کمپنی نہیں دے رہی سوزوکی کمپنی اس کے پیسے دے رہی ہے تو ایا یہ پیسے لینا مثال لاکھ روپے ہم نے بھرے ہیں اور اس میں سے بھی وہ ہم کو 80 ہزار دے رہے ہیں تو ایا یہ پیسے لینا بہتر ہے یا نہیں ذرا اس بارے میں رہنمائی فرما دیجیے جزاک اللہ خیر
مارکہ جو ہے وہ ہے سوزوکی ٹھیک ہے سوزوکی کمپنی سے ہی لی ہے یہ ان کی پالیسی ہے انشورنس کی اور انشورنس کمپنی جو ہے وہ ڈیفالٹ کر رہی ہے ڈیفالٹر جو ہے وہ انشورنس کمپنی ہوئی ہے اور پیسے جو دے رہی ہے وہ سوزوکی کمپنی دے رہی ہے ٹھیک ہے اور پیسے بھی وہ دے رہے ہیں جو ہم نے مثالیں بھرے ہیں مثالیں ہم نے اگر لاکھ روپے بھرے ہیں تو لاکھ روپے میں سے بھی وہ 20 ہزار روپے کاٹ کے ہمیں 80 ہزار روپے دے رہے ہیں ٹھیک ہے تو ایا یہ لینا ہمارے لیے شرعی طور پر کیسا ہے یہ بتا دیں۔ کیونکہ پیسے وہی ہیں جو ہمارے بھرے ہوئے ہیں ٹھیک ہے

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

مروجہ انشورنس حرام ہے کیونکہ اس میں سود اور جوا دونوں پائے جاتے ہیں، "سود" اس اعتبار سے ہے کہ حادثہ کی صورت میں جمع شدہ رقم سے زائد رقم ملتی ہے اور زائد رقم سود ہے اور "جوا" اس اعتبار سے ہے کہ اگر حادثہ وغیرہ نہ ہو تو جمع شدہ رقم بھی واپس نہیں ملتی، انشورنس کمپنی اس رقم کی مالک بن جاتی ہے۔

اسی طرح اس میں جہالت اور غرر ( دھوکا) بھی پایا جاتا ہے، لہذا اسکوٹر کی انشورنس کرانا شرعاً ناجائز اور حرام ہے، البتہ ذکر کردہ صورت میں جمع کرائی گئی اصل رقم واپس لینا جائز ہے ۔

حوالہ جات

القرآن:(90:5 المائدہ)*
﴿ يَآ أَيُّهَا الَّذِينَ اٰمَنُوآ اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُون﴾

*الشامیة:(403/6،ط: دارالفکر)*
"القمار ‌من القمر الذي يزداد تارة وينقص أخرى، وسمي القمار قمارا لأن كل واحد من المقامرين ممن يجوز أن يذهب ماله إلى صاحبه، ويجوز أن يستفيد مال صاحبه وهو حرام بالنص.

واللہ تعالی اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ دارالعلوم حنفیہ (نعمان بن ثابت)

فتوی نمبر 282کی تصدیق کریں
24
Related Fatawa متعلقه فتاوی
  • انشورنس کی اصل رقم واپس لینے کا حکم

    یونیکوڈ   کاروبار 0
...
Related Topics متعلقه موضوعات